پاکستان کے مضبوط‘طاقت ور اور اقوام عالم میں نیک نامی حاصل کرنیوالے اداروں کو بدنام کرنے کی مہم کا آغاز ہونیوالا ہے۔ اس کار خیر کا سہرا پاکستان کے الیکشن کمیشن خصوصاً چیف الیکشن کمشنر کے سر سجایا جائیگا۔ پاکستان کی مسلح افواج نے اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل ہو کر کتنے ہی ملکوں میں خدمات انجام دیں‘ امن قائم کیا ملکوں کو خانہ جنگی سے نکال کر استحکام بخشا‘ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کتنی ہی بار پاکستان کی مسلح افواج کے جوانوں کی بہادری‘ قربانی اور خوش تدبیری کی تعریف کر چکے ہیں‘ صومالیہ‘ بوسنیا سمیت درجن بھر ملکوں میں ہمارے جوانوں کے خدمات انجام دیتے ہوئے شہادت پائی لیکن انہوں نے اپنے فرائض سے منہ موڑا نہ تشدد اور دہشت گردی کے جواب میں خون خرابے میں حصہ دار نہیں بنے‘ بوسنیا میں آج بھی پاکستانیوں کے احساس ذمہ داری اور جذبے کے اساطیری واقعات کو دہرایا جاتا ہے‘ بدقسمت صومالیہ میں خانہ جنگی اور وحشت کے خلاف اقوام متحدہ کے زیر اہتمام امریکی فوجیوں کی بڑی تعداد تعینات تھی’’جنگجو بوکو حرام‘‘ کے مسلح افراد نے درجن بھر شاید اس سے زیادہ امریکی فوجیوں کو پکڑ کر جیپوں کے پیچھے باندھ کر سڑکوں پر گھسیٹا‘ انکے اعضا جسم سے الگ ہوئے‘ کھال اتر گئی اور دردناک موت سے ہمکنار ہوئے ایسے دردناک انجام کی امریکہ کے عوام اور مسلح افواج تاب نہ لا سکے اور راتوں رات صومالیہ سے بھاگ کھڑے ہوئے‘ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دہشتگردوں کے حوصلے بڑھ گئے اور پرامن شہریوں کی زندگیاں جہنم بنا دی گئیں‘ اس جہنم میں کوئی بھی کودنے کو تیار نہیں تھا تب پاکستان کی مسلح افواج کے دستوں کی خدمات حاصل کی گئیں،انہوں نے خوش تدبیری‘ ثابت قدمی اور دلیری سے اپنا نقش جمایا اور کامران ہو کر واپس آئے۔ 2001ء میں امریکہ میں (twintower)کے حادثہ اور قتل عام کے بعد پھوٹ پڑنے والی دہشتگردی اور دہشتگردی کا خوفناک ہتھیار خودکش حملہ آور ایسا ہتھیار استعمال ہونے لگا کہ تمام ترجدت‘ ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے باوجود پوری دنیا کی مسلح افواج بے بس اور عاجز ہو کر رہ گئیں‘ افغانستان میں امریکی قیادت کے زیر اہتمام نیٹو کی افواج اور دنیا بھر میں ایک سو سے زیادہ ممالک کی عملی امداد و تعاون‘ جدید ترین ہلاکت خیز ہتھیاروں کے باوجود بیس سال تک دہشتگردی کی وحشت کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہو کر افغانستان سے بھاگ نکلے‘ اس دہشتگردی کا کامیاب مقابلہ پاکستانی افواج کے سوا کوئی دوسرا نہیں کر سکا تھا‘ پاکستان کی مسلح افواج نے اس پر کامیابی کے ساتھ قابو پا کر اپنی منفرد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔الیکشن کمیشن کا عذر عمر بھر کی نیک نامی اور کئے کرائے پر پانی پھیرنے والا ہے‘ 1۔ ہمارے پاس دنیا کی چھٹی اور معیار کے لحاظ سے بہترین افواج ہیں جو پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے ساتھ اقوام متحدہ کے امن مشن میں شاندار اور کامیاب کردار ادا کرتی ہیں لیکن اپنے ملک الیکشن کے اہم اور آئینی فریضہ انجام دینے کیلئے انکے پاس افرادی قوت نہیں‘ وہی فوج جو بڑی سے بڑی قدرتی آفت یا ہنگامی صورتحال کے مقابلے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے‘ یہ عذر اس کی صلاحیت ‘ نیک نامی اور ماضی کے تمام خدمات پر پانی پھیرنے کے مترادف کے ہے‘ یقینا ہمارے قابل فخر ادارے کیلئے یہ بات کسی طرح قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ 2۔ دوسرا عذر الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ پیش کیا گیا ہے کہ ’’وزارت خزانہ نے کہا کہ الیکشن کے اخراجات کے لئے ہمارے پاس فنڈ نہیں ہیں‘ اپنے ملک میں اہم ترین دستوری ادارے کی تکمیل سے فنڈ کی عدم دستیابی کا عذر ’’ملک کے دیوالیہ ہونے کا اعلان ہے‘‘ دوسری طرف ہمارا دعویٰ ہے کہ پاکستان بائیس کروڑ لوگوں کا طاقتور اور ایٹمی طاقت رکھنے والا ملک ہے‘ ایسے ملک قومیں دیوالیہ نہیں ہوتیں مگر الیکشن کمیشن کا عذر دیوالیہ ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔ 3۔ الیکشن کمیشن نے تیسرا بہانہ یہ تراشا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے انتخابات کیلئے ضروری عملہ دینے سے انکار کر دیا ہے، اس لئے ہم انتخابات کے بنیادی انتظامات نہیں کر سکتے‘ اس طرح الیکشن کمیشن نے ایک طرح سے پاکستان کے سارے ریاستی اداروں کو آئین سے انحراف کا مرتکب قرار دیدیا ہے کیونکہ تمام ریاستی ادارے الیکشن کا اعلان ہوتے ہی الیکشن کمیشن کے احکامات کے تابع ہو جاتے ہیں‘ اس طرح اس ادارے نے اپنی نااہلی کو بھی تسلیم کیا ہے۔ملک کے اندر ہم انتخابات سے فرار کے نتائج دیکھ ہی نہیں بھگت بھی رہے ہیں‘سیاسی عدم استحکام پیدا ہو چکا ہے‘ سیاسی عدم استحکام نے معاشی بدحالی کی شکل اختیار کر لی ہے‘ معاشی بدحالی کا لازمی نتیجہ انتظامیہ کی تباہی اور ملک میں خانہ جنگی کا باعث بننے جا رہا ہے‘ جس کے آثار تیزی سے ظاہر ہونے لگے ہیں۔الیکشن کمیشن کا یہ عذر پاکستان کی بدنامی او جگ ہنسائی کا سبب بننے والا ہے‘ ایسی باتیں سفارتی سطح پر بڑی مشکلات کا باعث بننے جا رہی ہیں‘ ہمارے دشمنوں کو اب ہمارے خلاف مہم چلانے کی ضرورت نہیں‘ یہ سب ہم خود کرنے جا رہے ہیں۔ اس سفارتی کارروائی کی ابتدا ہو چکی ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ عالمی برادری کو ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کا موقع فراہم کرنے جا رہا ہے‘ اس کی پہلی اور ابتدائی جھلک الیکشن التوا کے باقاعدہ اعلان سے پہلے ہی دکھائی دینے لگی تھی اس کی ابتدا ہو چکی ہے۔واشنگٹن امریکہ سے اس کی ابتدا ہو چکی ہے‘ امریکہ میں موجود ایک ہزار سے زائد ڈاکٹروں نے امریکی قانون سازوں (کانگرس) کیلئے ایک خط پر دستخط کئے ہیں‘ جس میں سابق وزیر اعظم عمران خاں کی حفاظت کو لاحق خطرات کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے‘ یہ صرف تحریک انصاف کے حامی نہیں ہیں بلکہ مختلف سماجی اور سیاسی پس منظر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ہیں‘ پی ٹی آئی چیئرمین کے مشیر برائے بیرون ملک پاکستانی عاطف خاں نے دعویٰ کیا‘ صرف ایک مشترکہ عنصر ہے کہ یہ سب عمران خاں کی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہیں‘ پاک پی اے سی(پبلک افیئر کمیٹی) کے نام سے ایک گروپ جو کہ عام طور پر کمیونٹی کے مسائل اور معاملات پر کانگرس میں مہم چلاتا ہے‘ نے بھی پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایسا ہی ایک خط تجویز کیا ہے کہ دونوں گروپ اپنے مقامی قانون سازوں کو سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی اور ایوان کے خارجہ تعلقات کمیٹی کے اراکین اور چیئرمین کو خطوط ارسال کریں‘دیگر امریکی ریاستوں میں بھی اس طرح کے خطوط کے مسودات تیار کر کے امریکی قانون سازوں اور بائیڈن انتظامیہ کے سینئر اراکین کو بھیجے جا رہے ہیں۔جس میں لکھا گیا کہ ’’ہم پاکستان کی نازک صورتحال کو فوری طور پر آپ کی توجہ دلانے کیلئے لکھ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ اختلاف رائے کو دبانے اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی سلامتی کو لاحق خطرات کی وجہ سے ہمارے خاندانوں اور پیاروں سمیت لاکھوں شہریوں کو سلامتی اور فلاح و بہبود کو خطرات لاحق ہیں۔ڈاکٹروں نے قانون سازوں کو اپنی تشویش دور کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال فوری توجہ اور اقدامات کا تقاضا کرتی ہے تاکہ ملک کو ایک اور دہائی کیلئے مارشل لاء کی تاریکیوں میں ڈوبنے سے بچایا جائے۔پاکستانی نژاد امریکی شہری ہونے کے ناطے‘ ’’ہم اس بات کو یقینی بنانے کیلئے آپ کی حمایت کے خواہاں ہیں کہ پاکستانی عوام کی آواز سنی جائے‘‘ ہم پاکستان کے حالات پر آپکی توجہ اس لئے چاہتے ہیں کہ عالمی برادری کی حمایت سے ہم ملک کو تاریکی کے گڑھے میں گرنے سے روک سکتے ہیں‘ ہم آپ پر زور دیتے ہیں کہ فوری کارروائی کریں اور پاکستان میں تمام شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کریں۔(جاری)