قدرتی آفات صرف پاکستان کا مقدر نہیں ہیں بلکہ اس نوعیت کے بے شمار آفات پوری دنیا میں ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے۔زلزلوں سے لیکر شدید طوفانی بارشوں تک اور آندھیوں سے برف باری تک یہ سب آسمانی آفات کے مظاہر ہیں۔غور طلب امر یہ ہے کہ اس سے نمٹنے کیلئے دنیا کی ریاستیں کیا کرتی ہیں جبکہ مصیبت کی اس گھڑی میں ہم کہاں کھڑے ہوتے ہیں؟ آٹھ اکتوبر2005 ء کو مظفرآباد، بالاکوٹ ، راولاکوٹ اور خیبرپختونخوا کے بٹگرام، ایبٹ آباد، ناران ، کاغان اور دارالحکومت اسلام آباد میں ایک ہولناک زلزلہ آیا جس کی شدت ریکٹرسکیل پر سات چھ ریکارڈ کی گئی ۔ زلزلے کے نتیجے میں کم سے کم تہتر ہزار افراد ہلاک ، چھ لاکھ مکانات ، پینتیس لاکھ کی آبادی اور تیس ہزار مربع کلومیٹرکاعلاقہ متاثر ہوا۔بلاشبہ سات اعشاریہ چھ ریکٹر سکیل کا زلزلہ ایک ہولناک قدرتی آفت تھی جس کے لئے عرب ملکوں اور دنیا کے کئی دیگر ملکوں نے مصیبت کی اس گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا۔ ہمیں امدادی فنڈز بھی ملے ، راشن اور ادویات بھی لیکن پندرہ سال بیت جانے کے باوجود بھی اس آفت کے نتیجے میں لوگوں کو لگنے والے زخموں کا مداوا ہم سے نہیں ہوسکا ۔وجہ صرف اور صرف ہماری نااہلی، کام چوری، مس منیجمنٹ، کرپشن اور بے حسی ہے۔ ڈیڑھ دہائی گزرنے کے باوجود اس ہولناک زلزلے کے متاثر خاندانوں کے زندگیاں اب بھی معمول پر نہیں آئیں ہیں ۔سینکڑوں خاندان تا حال خستہ حال شیلٹرز میں زندگی گزار رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں اب بھی لوگ حکومت اور ریاست سے شاکی ہیں۔ایک معتبر ذرائع کے مطابق آزاد کشمیر کے شہر نیو بکریال کا ہیڈ کوارٹر ہسپتال ابھی تک قائم نہیں ہو سکا ہے۔اس زلزلے کے نتیجے میںبالا کوٹ کا پچانوے فیصد انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوگیا ۔معتبر ذرائع کے مطابق اس انفراسٹرکچر کی مرمت اب بھی مکمل نہیں ہوئی ہے۔ حکومت نے تباہ شدہ علاقوں کی دوبارہ آباد کاری کیلئے’’ ایرا ‘‘کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور اسے مجموعی طور پر چودہ ہزار سات سو چار منصوبے مکمل کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق ان منصوبوں میں سے اب تک تک نصف منصوبوں پر کام مکمل ہوچکا ہے تاہم دو ہزار سے زیادہ منصوبے زیر تعمیر ہیں اور ہزاروں منصوبوں پر ابھی تک کام شروع نہیں ہوا ہے۔اسی طرح 2010 ء میں ہم ایک مرتبہ پھر سیلاب کی شکل میں ایک تباہ کن آفت سے دوچار ہوئے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اس سیلاب سے ستر لاکھ کے قریب افراد متاثر ہوئے جبکہ خیبرپختونخوا کے اکثر علاقوں خصوصاً ڈیرہ اسماعیل خان میں اس سیلاب نے زیادہ تباہی مچادی ۔ایک سروے کے مطابق اس سیلاب کے دوران ایک ہزار سے زائد جانی نقصانات برداشت کرنے کے اعتبار سے خیبر پختونخوا پہلے نمبرپررہا۔اسی طرح سندھ میں چھتیس لاکھ اور بلوچستان میں سات لاکھ افراد متاثر ہوئے۔لیکن ہماری حکومت کا رویہ اس مرتبہ بھی وہی سردمہری ، نااہلی اور کام چوری والا رہا۔نہ صرف غیر ملکی مالی امداد ہمیں ملا بلکہ ترک وزیراعظم رجب طیب اردوان کی اہلیہ ایمان اردوان کی غیرت کواتنی جوش میں آئی کہ اپنے گلے کا قیمتی ہاربھی حکومت پاکستان کو اس شرط پر عطیہ کیا کہ اس کے رقم سے سیلاب زدگان کی مدد کیاجائے ۔لیکن بعد میں جب پتہ چلا تو اہلیہ اردوان کے گلے کا اسی قیمتی کے پیسے سیلاب زدگان پرخرچ کرنے کی بجائے اسی وقت وزیراعظم صاحب کے گھر کی زینت بناتھا۔پچھلے دو ہفتوں سے ملک کے دوسرے علاقوں کے علاوہ بلوچستان کے کئی علاقے شدید برف باری کی آفت سے دو چار ہیں۔کوئٹہ۔ژوب شاہراہ کان مہترزئی کے مقام پر پچھلے ایک ہفتے سے بلاک ہے لیکن بے حس حکومت چند کلومیٹر کی سڑک برف سے کلیئر کرانے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے۔ہزاروں کی تعداد میں مسافر اور مال بردار گاڑیاں مسلم باغ کے مقام پر برف میں پھنسے ہوئے ہیں، کئی افراد ہلاک اور بے شمار بیمار پڑ گئے ہیں-مصیبت کے اس عالم میں پوری بلوچستانی حکومت پر صرف دونوجوان خدائی خدمت گار بھاری ثابت ہوئے۔ایک نوجوان سلیمان خان کا تعلق ضلع پشین کے علاقے بوستان سے ہیں جبکہ دوسرا ایک صحافی اور سماجی ورکر جمال ترکئی ہیں۔سلمان خان کو جونہی اطلاع ملی کہ برف باری میں ہزاروں لوگ پھنسے ہوئے ہیں تو اس حساس نوجوان نے فوری طور پر کمر کس لی اور اپنی لینڈ کروزر میں بیٹھ کر بے یارومددگار مسافروںکی مدد کیلئے پہنچ گئے-نہ صرف سو کے قریب لوگوں اور بے شمار گاڑیوں کو اپنی طاقتور گاڑی کے ذریعے نکالا بلکہ بے شمار لوگوں کیلئے خوراک کا اہتمام بھی کیا۔اسی طرح جمال ترکئی نے بھی بڑی جوانمردی سے ایک طرف سوشل میڈیا پر اس دگرگوں صورتحال کیلئے مہم چلاتارہا اوردوسری طرف متاثرین کے لئے گرم کمبل،چادروں اور خوراک کا انتظام بھی کرتارہا۔ ہم سلام پیش کرتے ہیں اس قوم کے ان خدائی خدمت گاروں کو جنہوں نے بغیر کسی طمع اور لالچ کے اپنے تئیں برف میں پھنسے مسافروں کی دل وجاں سے مدد کی ۔ گو یاکہ یہی دو بندے پوری صوبائی حکومت پر بھاری ثابت ہوئے اور نیک نام بنے ۔