عام پاکستانی بڑی بے بسی سے اس فلم کو دیکھ رہا ہے، جس کا ہر منظر اسے اس غیر یقینی اور اضطراب میں دھکیل رہا ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ریاست کے دیوالیہ ہونے کے اندیشے اور غربت کے بڑھتے ہوئے سائے اسے چاروں طرف سے دبوچے ہوئے ہیں، تمام سیاسی کردار اپنے اپنے مفادات کا کھیل رچا رہے ہیں، اداروں کے انداز اور دائو پیج نے بھی معاشی بدحالی کی شکار قوم کو انجانے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔سیاسی معاملات کو قانونی تشریحات کی کسوٹی پر پرکھنے میں بھی تضادات نے ٹکرائو کی کیفیت پیدا کر دی ہے، یوں تو میں نہ جانے کتنی بار وطن عزیز کا سیاسی منظر دیکھ کر اس احساس کی گردش میں رہا کہ چاند گرہن کی زد میں ہے، پاکستان بحران کی دہلیز پر ہے لیکن آج اپنے وطن سے محبت کرنے والا ہر پاکستانی سوچ رہا ہے کہ لاکھوں انسانوں کے خون سے پیدا ہونے والی آزادی کی صبح کی روشنی ہمارا مقدر بنی تھی۔لیکن آج ہمارا اجالا داغ داغ ہے، سیاستدان اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں ایک طرف حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں کسی بھی صورت میں فوری الیکشن نہ کرانے پر مصر ہیں، تو دوسری طرف عمران خان ہیں جو 10اپریل 2022ء کو اقتدار سے الگ ہونے کے بعد سے اپنے بیانیے بدل بدل کر حکومت اور ریاستی اداروں پر حملہ آور ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحادی حکومت اپنی گزشتہ ایک سالہ کارکردگی کے تباہ کن نتائج کے سبب شکست کے خوف میں مبتلا ہے تو دوسری طرف عمران خان اقتدار سے اپنی بیدخلی کو امریکہ کے کھاتے میں ڈالنے اور ایک سائفر کو لہرانے سے لے کر آج تک پورے ایک سال میں نت نئے پینترے بدل کر حکومت پر ہتھوڑے کی طرح برس رہے ہیں۔ تلخ حقیقت تو یہی کہ عمران خان کی حکومت کے پونے چار سال اور موجودہ حکمرانوں کا ایک سال اسی دھینگا مشتی میں گزرے ہیں کہ ایک دوسرے کو کیسے نیچے دکھایا جائے۔میرے خیال میں تلخ حقیقت یہی ہے کہ ہمیں وہ قیادت نصیب نہیں ہوئی جو اس ملک کو بحرانوں سے نکال سکے، جو ہمیں ہماری کم مائیگی پسماندگی جہالت بیماری بداخلاقی کرپشن اور غیر جمہوری روایات کا سدباب کر سکے۔ سچ پوچھیں تو ہم آج جہاں کھڑے ہیں، اس پسماندگی اور محرومیوں کی تمام جڑیں قیادت کی نااہلیوں غلط فیصلوں قول و فعل کے تضادات اور مفادات کے کھیل میں پیوست ہیں۔ورنہ قدرت نے ہمیں کیا کچھ نہیں دیا پرجوش اور محنتی لوگ وسائل سے مالا مال زمین لیکن ہم آج کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ یاد رکھیں! دنیا میں بے بسی اور بے چارگی سے بڑی کوئی غلام نہیں ہوتی اور آج ہم نے بے بس بھی ہو چکے ہیں اور بے چارے بھی۔کبھی آپ نے سوچا کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے؟ مجھے آج وہ پاکستانی سفیر یاد آ رہے ہیں، جنہوں نے بھارت سے واپسی پر بتایا تھا لوک سبھا میں ابھی تک ایسے ممبران کی تعداد کم نہیں جو رکشوں اور ٹیکسیوں پر اجلاس میں شرکت کے لئے آتے ہیں، مانگ کر اخبار پڑھتے ہیں۔سودا ادھار لیتے ہیں۔بارش میں بوسیدہ چھتری لے کر گھروں سے نکلتے ہیں جوتے بغل میں دبا کر کیچڑ سے گزرتے ہیں اور گلی کے نل سے پانی بھر کر لاتے ہیں اور مجھے وہ پاکستانی سیاستدان بھی یاد آ رہا ہے، جس نے بڑے دعوے سے کہا تھا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں 95فیصد ایسے ارکان ہوتے ہیں جن کے پاس ذاتی گھر گاڑی اور بنک بیلنس ہوتا ہے، جن کا روزانہ کا خرچ ہزاروں لاکھوں میں ہوتا ہے، جن کے بچے مہنگے ترین سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ اب حکمران بتا رہے ہیں کہ گاڑی میں پٹرول ڈالنے کے پیسے نہیں ہیں میری سمجھ میں نہیں آتا کہ گاڑی کو پٹرول کے بغیر چلانے پر کیسے مجبور کیا جا سکتا ہے جی ہاں کوئی ان کو بتائے کہ ایمانداری فرض شناسی اور ملک سے محبت قوموں کے لئے پٹرول کا درجہ رکھتی ہے یہ نہ ہوں تو قومیں ‘ قومیں نہیں ہوتیں کبھی میں سوچتا ہوں کہ ایک ڈاکٹر عبدالقدیر جو 21صدی میں داخل ہو کر بھی سائیکل کی چین اور بیرنگ بھی باہر سے منگواتا ہے دنیا کی ساتویں نیو کلیئر طاقت بنا سکتا ہے ،افسوس یہ نہیں کہ ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔بلکہ یہ ہے کہ ہم اس ٹیلنٹ کے باوجود پیچھے رہ گئے ہیں جو پوری دنیا کی اقتصادیات اور ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہا ہے ہم ان سے کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ واپس آ کر ہمارا ہاتھ تھامیں گے۔ پھر جو حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار وطن لوٹ کر خدمت کے ارادے سے واپس آیا اس کے ساتھ ہم کیا سلوک کرتے ہیں۔سینکڑوں نہیں ہزاروں واقعات ہیں کہ ایسے عالیشان محب وطن لوگ پاکستان آئے اور بددل ہو کر واپس لوٹ گئے گزشتہ پانچ سال میں 7لاکھ لوگ ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں یہی تو وہ نسل تھی جو محنت اور کام کرنے پر یقین رکھتے تھے لیکن ڈگریاں ہاتھ میں تھامے وہ سالہا سال جوتیاں چٹخاتے رہے۔میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ ہم ہر روز آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب کیوں پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔پھر مجھے اس ماہر اقتصادیات کی وہ بات یاد آ گئی جس نے کہا کیا وہ ملک اقتصادی موت نہیں مر رہا۔جس کے کھیتوں میں صرف بھوک اگتی ہو جس کے دریا صرف سیلاب لاتے ہوں جس کے کارخانے صرف سرمایہ داروں کے ٹیکسال ہوں جس کے لاکھوں لوگ کروڑوں کما کر بھی ٹیکس نہ دیتے ہوں جس کی پارلیمنٹ چند ہزار فیوڈلز اور نادہندگان کی محافظ ہو۔جب میں اس ملک کی دم توڑتی معیشت پر نظر ڈالتا ہوں تمام بنیادی اداروں کو برباد ہوتے دیکھتا ہوں ملک سے شہریوں کی کمٹ منٹ کمزور ہوتے انہیں ضروریات کے ہاتھوں خوار ہوتے روزگار صحت اور تعلیم کے پیچھے بھاگتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں خرابی کہاں ہے کیا اس ملک میں ہاتھ سے کام کرنے والوں کی کمی ہے کیا اس ملک میں سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے والے دماغ نہیں ہیں کیا اس ملک میں زمین نہیں ہے۔زمین کو ذرخیز بنانے کے لئے پانی نہیں کیا اس ملک میں چاروں موسم نہیں ہیں، کیا اس ملک میں بیج کو نمو دینے والی ہوائیں چلتی اور کیا اس ملک پر فصل پکانے والا سورج طلوک نہیں ہوتا جواب ملتا ہے یہاں سب کچھ ہے۔ جب اللہ کی زمین پر جاگیردار فرعون بن کر قابض ہو گا تو کھیتوں میں بھوک نہیں اگے گی تو کیا ہو گا جو قومیں بددیانت لوگوں کو آقا بنا لیں ان کے لئے کوئی موسیٰ نہیں اترا کرتا۔