قوم کے ہر فرد میں ہمت، طاقت،چستی،جوش، ولولہ اور حوصلہ بھر دو، تو زوال پذیر قوم بھی زندہ ہو سکتی ہے۔قائد اعظم ؒ کے بعد کسی نے اس جانب توجہ نہ دی۔75برس بعد اب ۔رنگ ،نسل ،زبان ،علاقہ ،سوچ ،اور فکر الگ ہونے کے باوجود22کروڑ پاکستانی ایک خوددار قوم بننے پر تیار ہو چکے ہیں۔میانوالی جیسے پسماندہ علاقے میں عوام کا جم غفیر،اس کی دلیل ہے ۔حکمران اتحاد بھی نئی عوامی لہر سے متاثر۔لیکن مجمع عام میں اظہار سے گریزاں۔نجی محفلوں میں ہر کوئی غلطی کا اعتراف کر رہا ہے ۔غلطی کرنا انسانی فطرت ‘ مگر غلطیوں کی اصلاح نہ کرنا‘ خودکشی کے مترادف۔حکمران اتحاد کی پہلی غلطی تحریک عدم اعتماد لانا تھا۔اگر عمران خاں کو مدت پوری کرنے دی جاتی، تو اقتدار ہمیشہ کے لئے اس کے پاس سے چلا جاتا۔پھر وہی دو پارٹی سسٹم، لوٹ آتا۔اس کی جماعت ٹکڑوں میں بٹ جاتی،ایم این اے اور ایم پی ایز اڑان بھر جاتے، کارکن مایوس ہو کر کسی اور شاخ پر بسیرا کر لیتے۔یوں خود بخود اقتدار ہاتھ سے ریت کی طرح سرک جاتا۔لیکن حکمران اتحاد نے اسے دوبارہ زندہ کر دیا۔ناراض کارکن لوٹ آئے۔ایک نیا جوش ولولہ پیدا ہوا۔میانوالی کے جلسے میں دیکھ لیا،اس کا کارکن چارج ہو چکا ہے۔ عظیم دانشور نے کہا تھا:دوسروں کے سہارے کھڑا ہونی والی حکومتیں دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھل جاتی ہیں۔ابھی ایک مہینہ نہیں گزرا۔اختلافات سر اٹھانا شروع ہو گئے۔پیپلز پارٹی کی سکینڈ لیڈر شپ سیاسی رہنمائوں پر مذہبی مقدمات کی بھر پور مخالف۔خورشید شاہ اور فرحت اللہ بابر برملا مذمت کر چکے۔مہنگائی پر بھی حکمران اتحاد پریشان۔اس کا مداوا کیسے کرنا؟سمجھ سے بالاتر۔عمران حکومت کا احتساب بھی ضروری۔مگر صبر و تحمل کے ساتھ۔میڈیا پر بیان بازی سب دکھاوا۔فریبِ نفس۔پردے کے پیچھے کچھ اور ہی چل رہا ہے۔ پنجاب ایک سنگین قسم کے سیاسی ہیجان سے گزر رہا ہے۔اسلام آباد کی بے قرار روح بھی کسی آسودگی کی تلاش میں ہے۔نئی شیروانی زیب تن کرنے والے کو اپنے سے پہلے گزر جانے والے کا حشر عبرت دلاتاہے۔جس بنا پروہ جی ہار کے بیٹھ جاتا۔وزیر اعظم میاں شہباز شریف بھی اس مخمصے کا شکار ہیں۔مریم نواز کا جلسہ کامیاب تھا۔اس میںعساکر پاکستان کے ایک سپوت کا جس انداز میں بار بار نام لیا گیا ،وہ باعث تشویش ہے۔یاد رکھیں ! ان حالات میں مسلم لیگ کا جو بھی جلسہ ہو گا، وہ عمران خاں کے عوامی سمندر کے مقابلے میں سراسر بے کیف رہ جائے گا۔آج جہانگیر ترین اور علیم خان اس قافلہ میں شامل نہیں۔تاہم تحریک انصاف کو اس مقام پر آنے کے لئے جو طویل اور کٹھن سفر طے کرنا پڑا، اس میں ان دونوں کا بڑا حصہ تھا۔عمران خاں بذات خود اور تحریک انصاف ان دونوں کے احسان سے کبھی سبکدوش نہ ہو سکے گی۔عمران خاں کی زیر کی قیادت‘ جہانگیر ترین کا ہیلی کاپٹر اور پرانے راہ و رسم‘ علیم خان کا پیسہ ‘ شاہ محمود قریشی کا جوش خطابت۔حامد خان کی بے باکی اورپرویز خٹک سمیت ہر ایک کا خون جگر پی ٹی آئی کی تعمیر میں صرف ہوا ہے۔اب خط کے بعد اس کا عروج دیدنی۔ہماری حکومتوں کی تبدیلی۔سیاسی عدم استحکام‘ محلاتی سازشیں ،اکھاڑ پچھاڑ کوئی نئی بات نہیں۔اسکندر مرزا افتاد طبع کے اظہار سے سب سے چالاک حکمران تھے۔سیاست کی بساط پر ان کی انگلیاں ایک مشاق شاطر کی طرح کبھی فارغ نہ رہیں۔انہیں سیاسی مہرے بدلنے میں بڑا لطف آتا تھا۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی روح کسی میں حلول کر گئی ہے۔ورنہ یہ عدم اعتماد کبھی کامیاب نہ ہوتی۔ گاڑی ہمیشہ ڈرائیور چلاتا ہے۔پچھلی نشست پر بیٹھا ہوا آدمی نہیں‘ خواہ وہ کیسا ہی خوگر اور طاق ہو۔75برسوں سے پاکستان کا ڈرائیور کون؟سیاستدان تو ایک مہرے کے طور پر سامنے ہوتے ہیں۔ڈرائیور نے ہی موٹر وے اور جی ٹی روڈ پر ٹریفک کے بہائو کو دیکھ کر گاڑی چلانی ہوتی ہے۔ڈرائیور کے سپیڈ پکڑنے آہستہ کرنے۔سواریاں اتارنے اور بٹھانے پر آج تک کسی نے چوں چراں نہیں کی۔اب کی بار معاملہ مگر دوسرا ۔ایسا شخص سامنے کھڑا ہے، جس کا دامن سیاسی آلاشوں سے پاک ،اقربا پروری اور لوٹ کھسوٹ سے کوسوں دور۔عوام میں اسے مقبولیت حاصل ۔ووٹ تو رہے ایک طرف، عوام اب اس پر سرمایہ لٹانے کو بھی تیار ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا۔دنیا کی کوئی طاقت غربت‘ افلاس اور جہالت کے خلاف جدوجہد نہیں روک سکتی۔عمران خان کی جدوجہد انہی چیزوں کے خلاف ہے۔یہی وجہ ہے کہ عوام جوق در جوق اس کے قافلے میں شامل ہو رہے ہیں۔کیا یہ قدرت کا قانون ہے کہ افریقہ اور ایشیا کے لوگ بھوکے‘ پسماندہ اور مفلوک الحال رہیں۔یورپ پھلتا پھولتا اور ترقی کرتا رہے۔کیا یہ ہمارا مقدر ہے۔نہیں، ہرگز نہیں۔ہم پسماندگی اور افلاس کی زنجیروں کو توڑنے کی سکت رکھتے ہیں۔ہم بہتر مستقبل تعمیر کرنا چاہتے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں خوشحال، اطمینان اور عزت کی زندگی بسر کر سکیں۔اس کے لئے یہی وقت ہے۔ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ حالیہ سیاسی منظر نامے کے بعد مستقبل کے مطلع کے بارے پوچھنا بھی ستم ظریفی۔چند ہفتے توقف کر لیں، تصویر نقشے پر عیاں ہو جائے گی۔صحافت کا تو اللہ حافظ ہے ،وہ سراسر سیاست میں ڈوبی ہوئی ہے۔اخبار نویسوں کی اکثریت کو عمران خاںسازگار نہ تھا۔اس نے کبھی ان پرعنایات نہ کیں ۔ وہ ہمارے صحافتی کلچر سے ناآشنا تھا۔لیکن یہ بھی اس کے شعور نہیں تو لاشعور میں احساس تھا کہ میڈیا اس کی آخری وقت تک مزاحمت کرے گا۔یہاں تک کہ عوامی حمایت طوفان بن جائے۔میڈیا نے مزاحمت کی ، پشاور جلسے کا بائیکاٹ بھی کیا ۔یہاں تک کہ کراچی میں عوامی طوفان امڈ آیا۔اب انھیں مجبوراََ جلسہ دکھانا پڑ رہا ہے۔ ہر دانا‘ عقل مند اور صاحب الرائے شخص کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم متحد ہیں؟قوم کو اس پر غور کرنا چاہیے؟ عساکر پاکستان کو بھی۔جی ہاں ‘ قوم کے اتحاد میں ہی ان کی طاقت پنہاں ہے۔جدید ‘ باصلاحیت پرعزم اور جذبہ شہادت سے سرشار ۔وطن پر جاں نچھاور کرنے والے افسران اور جوان‘ دنیا بھر کی افواج سے زیادہ شہادتوں کا جذبہ ،بلکہ حیران کن۔جذبہ شہادت دیکھو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جن ملکوں کی افواج کمزور‘ وہاں افراتفری عروج پر،عراق،شام ،یمن اور لیبیا میںجو کھیل کھیلا گیا ،وہ سب کے سامنے ہے ۔وزیر اعظم پاکستان کی بھتیجی اگر جلسوں میں جرنیلوں کے نام لیکر تنقید کرے گی ،تو بات سرپرستوں تک جائے گی۔افواج میں توایک کڑا نظم و ضبط ہے۔اتنا کڑا کہ تعجب ہوتا ہے مگر احساس تحفظ بھی۔ملکوں اور سرحدوں کی حفاظت اقوام نہیں افواج کرتی ہیں مگر عوام پشت پر کھڑے ہوتے ہیں۔صحت مند معیشت‘ شاد معاشرہ‘ اپنی سمت اور منزل کا جسے علم ہو۔وہ ہی کامران ٹھہرتا ہے ۔ورنہ زوال ہی زوال۔