سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے نو ماہ میں سرکاری ادارے مزید 294 ارب کے مقروض ہو گئے ہیں۔ حکومت قومی اداروں کا اربوں روپے سالانہ خسارہ برداشت کرتی ہے مگر بدقسمتی سے کسی حکومت نے بھی ان اداروں کو منافع بخش بنانے کی طرف توجہ نہ دی بلکہ خسارے کو نجکاری کیلئے جواز بنایا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ ملائشیا کے مہاتیر محمد کے مطابق نجکاری سے اندرونی قدر میں اضافہ ہوتا ہے ناہی روزگار میں۔ سیاسی اشرافیہ جان بوجھ کر قومی اداروں کو اونے پونے داموں فروخت کرنے کیلئے خسارے میں لاتی ہے اور ایسا بین الاقوامی بنک ،سٹاک مارکیٹس اور مقامی حکمران خود کوفائدہ پہنچانے کیلئے کرتے ہیں اس تاثر کو اس لئے بھی یکسر مسترد کرنا ممکن نہیں کیونکہ سیاسی اشرافیہ کی ا پنی ایئرلائنز اور سٹیل ملیں تو دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتی ہیں مگر پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز منافع کے بجائے مزید مقروض ہوتی جاتی ہیں۔ قومی اداروں کے خسارے کی وجہ بھاری معاوضوں پر ضرورت سے زیادہ سیاسی بھرتیاں بتائی جاتی ہیں۔پاکستان سٹیل ملز گزشتہ چار سال سے بند پڑی ہے مگر ملازمین کو تنخواہوں کیلئے قومی خزانے سے ہر سال اربوں روپے جاری کر دیے جاتے ہیں۔ اب قومی اداروں کا قرضہ 1594 ارب تک بڑھ چکا ہے۔ بہتر ہو گا حکومت قومی اداروں کو اونے پونے داموں فروخت کرنے کی بجائے ان کو خودمختاری دے کر اور غیر ضروری بوجھ سے نجات دلا کر منافع بخش بنانے پر توجہ دے تاکہ یہ قومی اثاثے معیشت کیلئے سفید ہاتھی ثابت ہونے کے بجائے سہارا بن سکیں۔