اسلام آباد ( خبر نگار خصوصی) ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے ایوان میں وزیراعظم کیلئے سلیکٹڈکالفظ استعمال کرنے پرپابندی لگادی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر عمر ایوب نے نکتہ اعتراض پرکہا ہم حکومتی بینچوں سے تحریک استحقاق پیش کرنا چاہتے ہیں ،انہوںنے قومی اسمبلی کے رولز 32اور رولز 95کا حوالہ دیتے ہوئے کہا وزیر اعظم قائد ایوان ہیں اور قوم کے منتخب نمائندے ہیں تاہم اپوزیشن کی جانب سے انہیں سلیکٹڈ وزیر اعظم کے طورپر مخاطب کرتے ہوئے ایوان کی توہین کی جاتی ہے ،اس سے ہمارا استحقاق مجروح ہوتا ہے ، اس دوران پیپلزپارٹی کے رفیع اﷲ خان کھڑے ہو کر سلیکٹڈ وزیراعظم کے نعرے لگاتے رہے ۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا جو بھی اس ہائوس کا ممبر ہے وہ ووٹ لے کر آیا ،آئندہ کوئی بھی یہ لفظ ایوان میں استعمال نہ کرے ،ایسے الفاظ استعمال کرکے ہم خودپارلیمنٹ کا تقدس پامال کرتے ہیں۔احسن اقبال نے بجٹپر بحث میںحصہ لیتے ہوئے کہا موجودہ حکومت ایک سال پوراہونے کے بعد بھی گزشتہ حکومتوں کو طعنے دیکر گزارا کررہی ہے ،انہوںنے 5ہزار ارب قرض لیا اور ایک اینٹ بھی نہیں لگائی ،تحریک انصاف حکومت کو اپنی کارکردگی کا جواب دینا ہو گا،آپ ڈی چوک کنٹینر پر نہیں، حکومت میں ہیں،حکومت خود پر تنقید برداشت کرے ۔ انہوںنے مزید کہا بجٹ میں کوئی تقاضا پورا نہیں کیا گیا ، صرف آئی ایم ایف کی خوشنودی حاصل کی گئی ، 6ارب ڈالر کے حصول کیلئے قوم کو اندھیروں میں دھکیل دیا گیا ، بجٹ میں سی پیک کو متاثر کرنے کیلئے اقدامات کیے گئے ، 10سالہ معاملات پر بننے والے کمیشن قبول نہیںخرتے ۔ پرویز اشرف نے کہا ہم نے حکومت چھوڑی تو 2.5بلین خسارہ تھا اور اب 20بلین سے زیادہ ہے ، ہمارے دور میں ڈالر گرا مگر ہم نے برآمدات بڑھا لیں، موجودہ حکومت کو بھی ایسے ہی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ وزیر پلاننگ کمیشن خسرو بختیار نے کہا حکومت نے چارج سنبھالا تو خسارہ 20ارب ڈالر تھا،وزیراعظم نے ہنگامی حالت میں دورے کر کے 9.5ارب ڈالر لیے اور اور 20ارب سے اب 12.5کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پر لے آئے ،ہمیں اتنی تنگ چادر ملی اس کے باوجود ترقیاتی بجٹ کم نہیں کیا۔پی پی کے رمیش لال نے کہا بجٹمیںتمام اشیائے خورونوش پر ٹیکس لگا دیا گیا ایسے لوگ جو ہر دور میں وزیر ہوتے ہیں لیکن گزشتہ حکومت پر تنقید کرتے ہیں ، اس طرح کے لوٹوں کیلئے بھی قانون ہونا چاہیے ۔شیخ راشد شفیق نے کہا 40 سال تک عوام 2پارٹی سسٹم کی وجہ سے مجبور تھی لیکن اب عمران خان نے عوام کو جگایا ،عوام کی امید صرف عمران خان ہے ۔ ادھر ڈپٹی سپیکر نے بتایا کہ ن لیگ کو بجٹپر بحث کیلئے 9گھنٹے 49 منٹ کا وقت دیا گیا تھا تاہم اسے 12گھنٹے ایک منٹ مل چکے ،تحریک انصاف کا وقت 12گھنٹے 57منٹ بنتا تھا اس کے 5گھنٹے 17 منٹ باقی رہتے ہیں۔این این آئی کے مطابق اسمبلی اتوار کو بھی جاری رہا تاہم اجلاس کے دور ان ارکان کی تعداد انتہائی کم دکھائی دی ۔ایک موقع پر 342 کے ایوان میں صرف 20 ارکان اسمبلی موجودتھے جن میں اپوزیشن کے 10 اور حکومت کے 10 ارکان شامل تھے ۔صباح نیوز کے مطابق وفاقی بجٹ کی منظوری کے معاملے پر پرحکومت کو سخت دباؤ میں لانے کے لئے اپوزیشن نے مشترکہ لائحہ عمل پر عملددرآمد شروع کردیا ، اپوزیشن ارکان نے مختلف وزارتوں کے بجٹ پر 500سے زائد کٹوتی کی تحریکیں جمع کرادیں۔