عید یا رمضان آنے سے چند دن قبل ماہرین فلکیات کی جانب سے ایک نقشہ گردش کرنے لگتا ہے کہ چاند کی عمر کس ملک کی سرحد پر کتنی ہو گی اور وہ کس ملک میں واضح نظر آئے گا اور کس ملک میں اس کے آسمان پر دکھائی دینے کے آثار بہت کم ہیں۔ مسجدوں میں بیٹھے ہوئے وہ علماء امام اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے فقیہہ جو اس امت کو ایک جسد واحد کہتے ہیں‘ جن کی تقریروں کی شعلہ بیانیاں مراکش سے لے کر برونائی تک ملکوں ملکوں بسنے والے کلمہ گو مسلمانوں کو ایک امت بتاتی ہیں‘ شام ‘ روہنگیا‘ یمن ‘ عراق‘ افغانستان اور دیگر ممالک میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر جن کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں جو اس پوری کائنات کے مالک و فرماں روا ایک اللہ کو مانتے ہیں‘ کبھی کسی نے آسمان پر لکیریں ڈال کر سرحدی چوکیاں نہیں قائم کیں کہ اب چاند کی سواری کے پاسپورٹ پر ویزا لگا ہے اور اس نے طورخم عبور کر لیا ہے۔ زمین پر عالمی طاقتوں کی امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کی سازش سے جنم لینے والے یہ ممالک یا قومی ریاستیں اتنی مقدس اور اہم ہیں کہ طورخم ‘ خنجراب اور تفتان کے سرحدی قصبوں کے دونوں جانب چین ‘ ایران‘ افغانستان اور پاکستان واقع ہیں کس قدر تمسخر انگیز اور مضحکہ خیز بات ہے کہ سرحد کے ایک جانب کھڑے لوگ عید منا رہے ہوتے ہیں کہ ان کے ملک کے دور دراز علاقے گوادر یا اروبیل میں چاند نظر آ گیا ہے جبکہ دوسری جانب والے روزہ رکھ رہے ہوتے ہیں اس لکیر پر امت کو تقسیم کرنے کا فتویٰ ‘ فیصلہ اور حکم تمام فقہوںکے علماء بیک وقت کر رہے ہوتے جو لوگ حج کا خطبہ براہ راست دیکھتے ہیں کربلا‘ نجف اور مشہد میں مغربین کی نماز ایک سکینڈ کے وقفے کے بغیر گھر بیٹھے دیکھ رہے ہوتے ہیں جن کے دل اپنے حنفی‘ مالکی‘ شافعی ‘ حنبلی اور جعفری بھائی کے ساتھ ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وہ مراکش میں بیٹھے ہوئے ایک نیک ‘ پارسا تہجد گزار شخص کی گواہی قبول نہیں کرتے کہ اس نے چاند دیکھ لیا ہے ہم اس کی گواہی پر عید منائیں گے اسے کہتے ہیں تم پاکستان یا ایران کی سرحد میں آ کر چاند دیکھ کر بتائو اور وہ بھی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ کو بتائو تب ہم یقین کریں گے ان کے اس رویے کی وجہ سے میں نے انگلستان میں تین عیدیں دیکھی ہیں۔2007ء کے رمضان کی آمد میں نے ایران میں دیکھی ہے ۔اہل تشیع کے ہاں شک کا روزہ ہوتا ہے اس کے بارے میں یہ اعلان تھا کہ اگر دوپہر بارہ بجے تک رویت ہلال کمیٹی چاند نظر آنے کا اعلان کر دے تو روزہ آگے بڑھا سکتے ہیں ورنہ توڑنے کی اجازت ہے تقریباً صبح گیارہ بجے میں دفتر سے گاڑی میں نکلا۔ ڈرائیور نے ریڈیو لگا رکھا تھا کیونکہ ابھی چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان نہیں ہوا تھا اتنے میں اعلان ہوا کہ چاند نظر آ گیا ہے۔ ڈرائیور خوب زور سے ہنسا اور فارسی میں بولا’’ہمراہِ آفتاب آمد ند‘‘ یعنی آج چاند سورج کے ساتھ تشریف لایا ہے۔ پاکستان کے مفتی پوپلزئی اور مفتی منیب الرحمن کی علاقائی تقسیم پر ماتم کرنے والے میرے جیسے شخص کے لیے یہ پوری امت کا ماتم تھاجس کی وجہ وہ ظلم ہے جو اس امت کی ہر فقہ کے علماء ‘ مجتہد اور اماموں نے تصورامت کا پرچم بلند کر کے نہیں بلکہ قومی ریاستوں کی سرحدوں پر سجدہ ریز ہو کر کیا ہے۔ ان کے ہاں تہران میں دیکھے جانے چاند کی حد زاہدان پر ختم ہو جاتی ہے اور گوادر میں دیکھے جانے والے چاند کی حد خنجراب پر ختم ہو جاتی ہے یوں لگتا ہے جیسے سنیوں کی بخاری و مسلم اور شیعوںکی اصول کافی میں ان سرحدوں کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا تھا اسی لیے تو یہ علماء اپنے مسلک کے دوسرے ملک کے عالم کی رویت قبول نہیں کرتے۔ سعودی عرب میں اگر کوئی بریلوی عالم چاند دیکھ لے ‘ ہندوستان میں کوئی دیو بندی عالم چاند دیکھ لے اور عراق میں کوئی شیعہ عالم چاند دیکھ لے‘ پاکستان کی رویت ہلال کمیٹی کے تمام مفتیوں کے علماء اپنے اپنے ان فقہی عالموں کی گواہی نہیں مانیں گے کیونکہ وہ امت کو تقسیم کرنے والی ان سرحدی لکیروں کی دوسری جانب رہتے ہیں۔ کیا ان قومی ریاستوں کی تقسیم سے پہلے بھی ایسے تھاکیا رسول اکرم ﷺ کی سنت اور اسلاف کا طرز عمل یہی تھا۔ سنن ترمذی اور ابو دائود کی مشہور حدیث جس میں ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا میں نے چاند دیکھا ہے۔ آپؐ نے پوچھا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں۔ اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا! بلال ‘ اعلان کر دو کہ کل روزہ رکھیں۔ آپؐ نے اس سے علاقہ دریافت کیااور نہ فاصلہ پوچھا بلکہ صرف مسلمان ہونے کی گواہی لی اور اس گواہی کی بنیاد پر سب کو روزہ رکھنے کے لیے کہہ دیا۔ چودہ سو سال کی فقہی تاریخ بھی اس معاملے میں پوری امت کو ایک اکائی تصور کرتی رہی ہے۔ احناف کی ’’الہدایہ‘‘ اور ’’در مختار‘‘ میں یہاں تک لکھا ہے کہ ’’اہل مشرق پر اہل مغرب کی روئیت دلیل ہے‘ فتاویٰ عالمگیری کے مطابق اگر اہل مغرب چاند دیکھ لیں تو اہل مشرق پر روزہ فرض ہو جاتا ے۔ مالکیوں کی کتاب ھدایتہ المجتہد مواہب الجلیل بلکہ قاضی ابو اسحاق نے ’’ابن الماجثون‘‘ میں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر لوگوں کے بتانے سے معلوم ہو جائے کہ دوسرے ملک والوں نے چاند دیکھ لیا ہے تو روزے کی قضا واجب ہو گی۔ ایسے ہی فتاویٰ شافعیوں کے ہاں ’’المغنی‘‘ اور حنابلہ کے ہاں ’’الاحناف‘‘ میں موجود ہیں۔ ان سب کا مفہوم اور مطلب یہ ہے کہ اگر امت میں کسی ایک جگہ چاند نظر آ جائے گواہ عادل ہو‘ تو پوری امت پر روزہ فرض ہو جاتا ہے۔ ہمارے ان قدیم فقیہوں کے فتوے آج کی جدید سائنسی دنیا کے کس قدر مطابق ہیں۔ ہر ماہ چاند 29دن 12گھنٹے‘55منٹ اور 28سکینڈ کے بعد اس دنیا کے مطلع پر طلوع ہوتا ہے جس جگہ بھی یہ طلوع ہو اگر وہاں اسے کوئی مسلمان دیکھ لے اور آج کے ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک ساتھ دنیا کو بتا دے تو شرعاً پوری دنیا کے مسلمانوں پر روزہ فرض ہو جاتاہے۔ پوری دنیا کا ٹائم زون تو بارہ گھنٹے جمع اور بارہ گھنٹے نفی ہیں جبکہ مسلمانوں کی ننانوے فیصد آبادی مراکش سے برونائی تک صرف سات گھنٹے کے ٹائم زون میں رہتی ہے۔ چاند اگر ایک مقام پر ایک دفعہ طلوع ہو گیا تو وہی اول یعنی پہلی کا چاند ہوتا ہے وہ اپنا سفر جاری رکھتا ہے اسے کوئی سرحد نہیں روک پاتی وہ ہمیں بے شک نظر نہ آئے لیکن اگلے دن اس کی عمر یعنی 29دن اور بارہ گھنٹے میں سے ایک دن کم ہو جانا ہے مگر ہمارا کمال دیکھیں کہ ہم تین دن گزرنے کے بعد بھی اسے پہلی کا چاند کہتے ہیں اور پوری دنیا ہمارا مذاق اڑاتی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک تصور امت سے زیادہ مقدس اور محترم وہ سرحدیں ہیں جو جنگ عظیم اول کے بعد سے بننا شروع ہوئیں۔ روس بہت بڑا ملک ہے ا س میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ مسلمان بستے ہیں۔ اس کے گیارہ ٹائم زون ہیں لیکن چونکہ سب ایک سرحد میں رہتے ہیں اس لیے ایک دن عید کرتے ہیں ۔ باقی ننانوے فیصد مسلمان سات ٹائم زون میں رہتے ہیں لیکن ان کی اپنی اپنی رویت ہلال کمیٹیاں انہیں ایک ساتھ عید نہیں کرنے دیتیں۔ کس قدر ظلم کی بات ہے کہ اس امت کو بیک وقت ایک دن عید کرنے‘ ایک دن روزہ رکھنے سے روکنے کے لیے ہر ملک میں شیعہ ‘ سنی ‘ بریلوی ‘ دیوبندی ‘ اہل حدیث اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ سب کا امام و طنیت کا وہ بت ہو جاتا ہے جسے قومی ریاستوں کی سرحد نے تراشا ہوتا ہے۔