’’اس شعلہ بار تقریر کے بعد قاضی صاحب نے انگریزوں سے اقتدار وصول کرنے کے لئے ایک کمیٹی بھی بنا دی۔ اس کمیٹی کے افراد کچھ نہ پوچھئے ‘ کیا تھے۔ انہوں نے پہلے ہی اجلاس میں اپنے تمام اختیارات قاضی عیسیٰ کو سونپ دیے اس طرح قاضی صاحب اپنے آپ کو بلوچستان کا وزیر اعظم تصور کرنے لگے۔‘‘ ’’قاضی عیسیٰ کی تقریر نفرت کا دھماکا ثابت ہوئی۔ شاہی جرگہ بپھر گیا۔ اس نفسیاتی فضا میں عبدالصمد خاں کو کام کرنے کا موقع مل گیا۔اس نے اس روز بڑے بڑے سرداروں سے ملاقاتیں کیں اور ان کے ذہن میں یہ بات ڈالی کہ ہم جناح کے پاس بھی جائیں گے اور نہرو کے پاس بھی جو ہماری شرائط مان لے گا ہم سب اسی کا ساتھ دیں گے۔ قاضی عیسیٰ کی تقریر سے ریاست قلات میں ایک نئی ذہنی روش چل نکلی۔موقع پرست عناصر نے بلوچ سرداروں میں یہ فتنہ اٹھایا کہ اگر ریاست قلات نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو ان کی زندگی قاضی عیسیٰ سے وابستہ ہو جائے گی اور قاضی عیسیٰ سرداری نظام کو تہس نہس کر دیں گے ‘اس لئے آزاد بلوچ ریاست کا قیام ضروری ہے‘‘۔ ’’قاضی عیسیٰ نے بگڑتی ہوئی صورت حال کا ذرا احساس نہ کیا بلکہ ایسے اقدامات شروع کر دیے ‘جن سے آگ اور بھڑک اٹھی ۔ انہوں نے سرداروں کے خلاف مہم اور تیز کر دی اور ایک شخص گل محمد خاں کی قیادت میں ایک ٹولی کو بلوچ سرداروں کے خلاف تقریریں کرنے کے لئے بلوچی علاقوں میں بھیج دیا۔ گل محمد خاں پٹھان تھے۔ ان کے آنے کی خبر سنی تو بلوچ قبائل غیظ و غضب سے پاگل ہو گئے ‘دراصل قاضی صاحب ‘ گل محمد خاں کے ذریعے میر جعفر خان جمالی پر کاری ضرب لگانا چاہتے تھے۔ جمالی صاحب اس روز کوئٹہ تھے اور جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ گل محمد خاں ہمارے علاقے میں جا رہا ہے تو وہ اپنے علاقے نصیر آباد کی طرف روانہ ہو گئے ۔ گل محمد خاں اور اس کے ساتھی بلوچی علاقوں سے گزر رہے تھے کہ کسی بلوچ نے گل محمد خاں کو گولی مار دی۔ یہ خبر بجلی کی طرح سارے بلوچستان میں پھیل گئی۔ کوئٹہ میں کہرام مچ گیا۔قاضی عیسیٰ نے اس موقع پر ایک جلسہ عام کیا اور اس میں دھمکی دی کہ ہم بلوچوں سے انتقام لے کے رہیں گے۔ یہ بڑا پُرآشوب وقت تھا۔ جذبات بپھرے ہوئے تھے‘ تقریروں نے سارے ماحول کو سوگوار اور دلخراش بنا دیا تھا۔ مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ میر جعفر خاں جمالی کو فوراً گرفتار کر کے پھانسی پر چڑھا دیا جائے۔ گل محمد خاں شہید کے نعرے لگتے رہے۔ شہر میں مکمل ہڑتال رہی۔ اس قدر ہجوم پہلے کسی جلسے میں نہ دیکھا گیا تھا۔‘‘ ’’بلوچستان میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ اس موقع پر نسیم حجازی اور خان عبدالخالق خاں‘ خان قلات سے ملنے کے لئے روانہ ہوئے۔ ان کی رائے میں خان قلات ہی اس صورت حال پر قابو پا سکتا تھا۔ اگر اس موقع پر وہ خاموش رہتا تو پٹھانوں اور بلوچوں میں جنگ چھڑ جانا بالکل یقینی تھا۔ دوسری طرف اگر حکومت میر جعفر خاں جمالی کو گرفتار کر لیتی تو بلوچ قبائل بھڑک اٹھتے اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کا راستہ بند ہو جاتا۔ خان قلات بلوچوں کو قابو میں رکھ سکتا تھا اور انگریز حکام سے بھی اس کے روابط بہت گہرے تھے۔ چنانچہ یہ دونوں حضرات خان قلات کو تازہ ترین صورت حال سے باخبر رکھنے کے لئے گئے۔ قلات وہاں سے 90میل کی مسافت پر تھا۔ گرمی سے برا حال ہو رہا تھا۔ وہ ابھی قلات سے پندرہ میل کے فاصلے پر تھے کہ ایک کار سامنے سے آتی ہوئی دکھائی۔ یہ قاضی عیسیٰ کی کار تھی۔اس کا صاف مطلب یہ تھا قاضی عیسیٰ تقریر ختم کرتے ہی قلات کے لئے روانہ ہو گئے تھے۔ ان کا قلات آنا کئی نئے فتنے جگا سکتا تھا۔خان عبدالخالق اور نسیم حجازی خان قلات سے ملے۔ خان نے وعدہ کیا وہ اے جی جی سے ابھی ملتے ہیں اور میر جعفر خاں جمالی گرفتار نہیں کئے جائیں گے۔‘‘ ’’یہ مئی 47ء کا آخر تھا۔ حکومت نے جمالی کو گرفتار نہیں کیا۔ تاہم قاضی عیسیٰ کے خلاف سرداروں میں شدید نفرت پیدا ہو گئی اور پاکستان کے لئے کام کرنا بہت دشوار ہو گیا۔پاکستان کے لئے سردھڑ کی بازی لگانے والے صورت حال کو خوشگوار بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے کہ ان پر ایک اور بجلی گری۔3جون کو مائونٹ بیٹن نے ہندوستان اور پاکستان کو آزادی دینے کا اصول تسلیم کر لیا تھا۔اس اعلان میں یہ شق بھی موجود تھی کہ بلوچستان کا فیصلہ شاہی جرگے کے ارکان کرینگے۔ ’’یہ انگریزوں کی دوسری بڑی سازش تھی۔ سرحد اور سلہٹ میں ریفرنڈم ہونا قرار پایا تھا مگر بلوچستان کو ایسے عالم میں شاہی جرگے کے سپرد کر دیا گیا۔ جب وہ مسلم لیگ سے سخت بدظن تھا۔ یعنی 65مشتعل ارکان کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ ان کا نمائندہ بھارت کی دستور ساز اسمبلی میں بیٹھے یا پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں۔ کیسے نازک موقع پر کس قدر بھیانک چیلنج !شاہی جرگے کے بگڑے ہوئے ارکان کو بڑی آسانی سے فریب دیا جا سکتا تھا۔ انگریزوں کے لئے بھی راستہ کھلا تھا اور کانگرس کے لئے بھی نئے حالات سے گھبرا کر قاضی عیسیٰ دہلی چلے گئے۔‘‘ ’’3جون کے اعلان سے عبدالصمد خان اچکزئی کا چہرہ فرط مسرت سے دمک اٹھا۔شاہی جرگے کی اس وقت ذہنی کیفیت یہ تھی۔ 1۔بڑی اکثریت قاضی عیسیٰ کی تقریر سے برہم تھی۔ 2۔ شاہی جرگے میں ابھی تک ایسے سردار موجود تھے جو یہ سمجھتے تھے انگریزوں کا رخصت ہونا ایک افسانہ ہے انہیں کون نکال سکتا ہے۔ 3۔ایک طبقہ واضح طور پر پاکستان کے حق میں تھا۔ 4۔ چند سردار خان قلات کے اس حد تک وفادار تھے کہ وہ صرف قلات کے بارے میں سوچ سکتے تھے ‘ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم ان کے ذہن میں سماتی ہی نہ تھی۔ 5۔ ایک اقلیت ان سرداروں کی بھی تھی جو کانگرس کے پراپیگنڈے سے خاصے متاثر تھے۔ 6۔ کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے 12ارکان میں سے تین ہندو تھے۔ ان حالات میں کام کرنا بڑا دشوار تھا۔29جون کو شاہی جرگے کے ارکان فیصلہ کرنے والے تھے‘ صرف 26دن کی مہلت تھی اور واقعات دریائے سندھ کے پرشور طوفان کی طرح تُند و تیز تھے۔ ایک ایک لمحہ اہم بھی تھا اور بوجھل بھی‘ تاہم باہمت لوگوں نے آخری معرکے میں سر کی بازی لگانے کا عزم کر لیا۔ بالآخر بلوچستان پاکستان کا حصہ کیسے بنا اور میر جعفر خان جمالی‘نواب جوگیزئی‘ نسیم حجازی‘مسعود کھدر پوش نے الحاق کے ضمن میں کیا خدمات انجام دیں؟یہ طویل داستان ہے‘بلوچستان آج بھی علاقائی اور عالمی طاقتوں کی جولان گاہ ہے اور علیحدگی پسندوں کے علاوہ قوم پرست اسی کھونٹے پر ناچتے‘پاکستان سے نفرت کا پرچار کرتے ہیں۔ تاہم لسبیلہ‘ قلات اور روجھان جمالی کے سردار آج بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ‘ ’’باپ‘‘ کا ایک مثبت کردار یہ بھی ہے۔