وزیر اعظم عمران خان نے نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس کی صدارت کی۔ جس میں بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح کم کرنے ‘ دوطرفہ تجارت معطل کرنے اور معاہدوں پر نظرثانی کرنے سمیت اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔ اجلاس میں طے کیا گیا ہے کہ14اگست یوم آزادی کو کشمیری عوام کے ساتھ یوم یکجہتی کے طور پر منایا جائے گا جبکہ بھارت کے یوم آزادی 15اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بھارت کے مقبوضہ وادی اور لداخ کے بارے حالیہ اقدام کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ ہر قسم کی تجارت ختم اور سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی ہرشعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شخص نے ستائش کی ہے۔ اس وقت پاکستان اور بھارت کے مابین 2ارب ڈالر کی تجارت ہے، جسے پاکستان نے بند کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ ہم کشمیری عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پلوامہ حملے کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ فضائی حدود بند کر دی تھی جس کا بھارت کو شدید نقصان ہوا ۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی پرائیویٹ ایئر لائن سپائس جیٹ کو 20جون تک 30.73کروڑ جبکہ انڈیا ایئر لائن کو 2جولائی تک 491کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اگر پاکستان بھارت کے لئے فضائی حدود بھی بند کر دے تو تجارت کے ساتھ اس کا مکمل بائیکاٹ ہو جائے گا۔جہاں تک تجارت کا تعلق ہے بھارت نے پہلے ہی پاکستانی اشیاء پر طرح طرح کے ٹیکس عائد کر رکھے تھے جبکہ پاکستانی تاجروں کو بھی بھارت کے ویزوں میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ماضی قریب میں پاکستانی تاجروں نے جب بھی بھارت میں اشیاء کی نمائش میں حصہ لیا تو انتہا پسند ہندو آپے سے باہر ہو گئے انہوں نے نمائشوں میں پاکستانی سٹالوں پر حملے کئے اور ہمارے تاجروں کو زدو کوب کیا۔ لیکن اس کے باوجود پاکستانی حکومت نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے اقدامات کئے لیکن بھارت کی حالیہ ہٹ دھرمی کے باعث قومی سلامتی کمیٹی نے قومی امنگوں کے مطابق فیصلے کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت اور قوم ایک پیج پر ہیں۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کر دیے ہیں لیکن دوسری جانب پاکستان کو سفارتی چینلز کو فعال بنا کر بھارت کی مقبوضہ وادی میں درندگی، نسلی تعصب اور نہتے کشمیریوں کی نسل کشی جیسے واقعات کو اجاگر کرنا چاہیے۔ دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھارتی دہشت گردی ‘ کشمیریوں کے اجتماعی قتل عام اور انسانی ضروریات زندگی کی تمام چیزوں پر پابندی بارے آگاہ کیا جائے۔ یورپی یونین، عرب امارات ‘ چین ‘روس ‘ جرمنی‘ جاپان‘ فرانس اور کوریا جیسے ملکوں کو بھارت کے مکروہ عزائم بارے آگاہ کیا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان ہمسایہ ملک ایران کا دورہ کر کے کشمیر بارے ان کی حمایت حاصل کریں۔ ایران پہلے بھی کشمیر بارے واضح موقف رکھتا ہے لیکن بھارت کی حالیہ ہٹ دھرمی کے بعد وہ اپنے موقف کے ساتھ شدت سے سامنے نہیں آیا۔ اسی طرح روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کو بھی اس بارے آگاہ کیا جائے ‘ تاکہ دنیا مودی کے مذموم عزائم سے آگاہ رہے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے جن پانچ فیصلوں کی منظوری دی ہے وہ وقت اور موقع کی مناسبت سے انتہائی اہم ہیں۔ سفارتی تعلقات محدود ‘ دو طرفہ تجارت کے خاتمے، 14اگست کو کشمیریوں سے یکجہتی اور 15اگست کو یوم سیاہ منانے اور دو طرفہ معاہدوں کا جائزہ لینے کا فیصلہ ۔ درحقیقت پاکستان اگر شدت کے ساتھ ان فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنائے تو بھارت ناک رگڑنے پر مجبور ہو جائے گا۔ بھارت نے دفعہ370اور A 35کی منسوخی سے قبل نہ صرف مقبوضہ وادی میں فوج کی تعداد بڑھائی بلکہ وادی میں انٹرنیٹ اور رابطے کے دیگر عام ذرائع کو بند کر دیا تھا۔ جس کا مقصد مودی کے وار سے کشمیر قوم کو بے خبر رکھنا تھا لیکن جیسے ہی کشمیری عوام کو بھارتی عزائم کا علم ہوا تو انہوں نے وادی کو جام کر دیا۔ چوکوں ‘چراہوں اورگلی محلوں سے کشمیری جوق در جوق نکلے جس پر قابض بھارتی فوج کے وحشیانہ تشدد کریک ڈائون اور فائرنگ کے نتیجے میں 6کشمیری شہید اور 100زخمی ہوئے ہیں جبکہ 100سے زائد کو گرفتار بھی کیا گیاہے۔ بھارت اپنے سیاہ قانون اور ظالمانہ اقدام سے کشمیریوں کی آواز دبانے کے درپے ہے لیکن کشمیری اس کے ہر قسم کے اقدام سے بے نیاز ہو کر صرف آزادی کے لئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان بھارت کی حالیہ کارروائی کے بارے بھی عالمی برادری کو آگاہ کرے۔ امریکہ اٹھارہ برس افغانستان کے پتھروں کے ساتھ سر مار مار کر بالآخر مذاکرات کی میز پر آیا ہے، جبکہ بھارت بھی 71برس سے کشمیر میں اپنے وسائل جھونک رہا ہے دراصل وہ بھی عالمی سپر پاور طاقت کی طرح ناکام ہو گا۔ بھارت کے حالیہ اقدام کا سب سے زیادہ نقصان امریکہ کو ہو گا کیونکہ افغان طالبان اور امریکہ کے مابین ہونے والے مذاکرات خطے کی کشیدہ صورتحال کے باعث متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس لئے اقوام متحدہ اور امریکہ صرف تشویش کا اظہار کرنے کی بجائے کھل کر بھارت کو دو ٹوک پیغام دیں، کہ وہ خطے کی صورت کشیدہ کرنے سے باز رہے۔ خدانخواستہ عالمی برادری نے ماضی کی طرح اگر خاموشی اختیار کئے رکھی تو اس خطے میں بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ لہٰذا عالمی برادری تیل اور اس کی دھار دیکھ کر ردعمل دینے کی بجائے بھارت کو کشمیریوں کی نسل کشی سے باز رکھے اور کشمیر کا پرانا سٹیٹس بحال کر کے خطے کے حالات کو نارمل کرے۔ ورنہ دونوں ایٹمی قوتوں میں کسی وقت بھی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ جس کے تباہ کن اثرات سے دنیا مزید غربت اور پسماندگی میں چلی جائے گی۔ لہٰذا پانی سروں سے گزرنے سے پہلے پہلے اقدامات کی ضرورت ہے۔