وطنِ عزیز کے معروضی حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ حکومت اورمذہبی ودینی قیادت کے درمیان بہترین اشتراکِ عمل فروغ پذیر ہو ،بالخصوص ’’مدارس دینیہ ‘‘کے ساتھ افہام وتفہیم کی فضا کا مستحکم ہونا، وقت کا اہم تقاضہ ہے ۔ یقینا اسی قومی ضرورت کے پیش نظر افواجِ پاکستان کے سربراہ اوراُن کی ٹیم کے ساتھ ، راولپنڈی میں منعقدہ خصوصی نشست میں اتحادِ تنظیمات مدارس دینیہ کی مرکزی قیادت، بالخصوص مفتی منیب الرحمن اورقاری محمدحنیف جالندھری … پاکستان کے نمائندہ دینی مدارس اور جامعات کے مہتمم صاحبان اور اکابر علمی ، دینی اور مذہبی شخصیات کی شمولیت ایک حوصلہ افزا امر ہے ۔ باہمی گفت وشنید ، افہام وتفہیم، مذاکرہ اور مکالمہ کی اسی فضا کو مزیدمضبوط اور مستحکم رکھتے ہوئے ،اس سے اگلے روز، یعنی 2 اپریل کو ، وزیر اعظم پاکستان اور پھر اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران پر مشتمل وفد کی 3اپریل کو صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ملاقات بھی یقینا لائق تحسین اور قابلِ پذیرائی ہے۔ مختلف دینی عمائدین کی طرف سے بیان ہونے والے تاثرات کے مطابق، کئی گھنٹوں پر محیط آرمی چیف کے ساتھ ملاقات کافی خوش آئند، نتیجہ خیز اور باعث خیر قرارپارہی ہے ، جس میں ہر دو اطراف کی لیڈ ر شپ نے اپنے دل کی کہیں ، دل سے کہیں اوران کوایک دوسرے کے دل میں اُترتے محسوس کیا ۔ زیر بحث موضوعات میں مدارس کی جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگی ،نصا ب میں عصری علوم کی شمولیت اور دینی مدارس میں ان کی تدریس ،مدارس کی رجسٹریشن بہ اشتراک وتعاون محکمہ تعلیم ، مدارس کے مالی معاملات/ فنڈنگ وغیرہ کی ضابطہ بندی ،انتہا پسندی اور تشدّد پرستی کا خاتمہ ، تکفیر اور فرقہ وارانہ تنظیموں کی بے جا عسکریّت اور مسلح جدو جہد کی بیخ کنی ،روادارانہ فلاحی معاشرے کے قیام کے لیے مشترکہ کاوش، مسجد کو مرکزِ ملت اور آئمہ /خطباء /علماء کو راہنما ئے ملّت بنانے کے لیے ،دینی درسیات کے ساتھ جدید علوم سے آگاہی اور مختلف سماجی مسائل پر راہنمائی کے لیے مسجد اور محراب کا مؤثر کردار بطور خاص قابل ذکر ہے ۔عام طور پر سرکاری اجلاسوں میں"مدرسہ ایجوکیشن"پر گفتگو کرنے والے ’’ مدرسہ سسٹم‘‘ سے اتنے آگاہ نہیں ہوتے ،مگر شرکاء اس امر پر مطمئن ہیں کہ ان سے مخاطب ہونے والی شخصیات ،مدارس کے نظام اور نصاب سے واقفیت رکھنے والے تھے ۔ وزیر اعظم پاکستان کا یہ کہنا بھی خوش آئند سمجھا گیا کہ ملک میں مختلف نظام ہائے تعلیم معاشرے میں تفریق کا باعث ہیں ،سب کے لیے یکساں نظام تعلیم رائج کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ بلاشبہ ، پاکستان کے قیام اور اس کے استحکا م میں دینی طبقات اورمذہبی شخصیات کا کردار ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے ۔ موجودہ حالات،جن میں وطن دشمن قوتیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے، ہمارے پیارے ملک کی آزادی اور سا لمیت کو دائو پر لگانے کے درپے ہیں ، میں، صاحبانِ محراب ومنبر ،اہالیان سجادہ وخانقاہ اور ارباب دعوت وارشاد… کا قومی یکجہتی ،ملکی استحکام ،فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ملکی امن وامان کے لیے ہمیشہ کی طرح ،اپنا اساسی اور کلیدی کردار ادا کرنے کا اعادہ ، ایک فطری امر… اور یقینا اُن کا منصبی ،دینی اور ملّی فریضہ بھی ہے۔پاکستان میں دینی تعلیم مکمل طور پر پرائیویٹ سیکٹر میں ہے ، جس کو ہماری مدرسہ لیڈر شپ ایک مؤثر نظام کے تحت چلا رہی ہے ۔ اس وقت پاکستان بھر میں تیس ہزار سے زائد دینی مدارس ہیں ،جن میں چھ لاکھ سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں،ہر مسلک اورمکتبہ فکر کاایک خود مختار بورڈ ہے، جس کے ساتھ متعلقہ مسلک کا مدرسہ الحاق(Affiliation)حاصل کرنے کے ساتھ ہی، اس کے قواعد وضوابط کا پابند ہوجاتا ہے ۔ اس وقت تنظیم المدارس اہل سنت (بریلوی)، وفاق المدارس العربیہ(دیوبندی) ، وفاق المدارس السلفیہ(اہل حدیث) ، وفاق المدارس الشیعہ(شیعہ) جبکہ رابطۃ المدارس الاسلامیہ (جماعت اسلامی )کے نام سے سرگرم عمل ہیں ، مذکورہ پانچوں وفاقوں نے مدارس کی سا لمیت،بقا، تحفظ اور اپنی خود مختاری کو محفوظ اور مضبوط بنانے کے لیے ، مسالک کی تفریق سے ماورأاور گروہی اختلاف سے بالا تر ہو کر’’اتحادِ تنظیمات مدارس دینیہ‘‘کے نام سے ایک مشترکہ اور متفقہ فورم قائم کررکھا ہے ،جس میں شامل ،ان مسالک اور مکاتب فکر کے قائدین کا باہمی اتفاق واتحاد مثالی ہے ۔ اے کاش اس رواداری اورمحبت والفت کے اثرات ان اداروںمیں زیر تعلیم عام طالب علم تک بھی پہنچیں ۔وفاقی حکومت کے پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے خاتمے کے بعد سے ،مدرسہ ایجوکیشن میں اتحادِ تنظیمات مدارس دینیہ کی بلا شرکتِ غیر بالا دستی…بلا شبہ ایک مسلمہ امر ہے ،ان کے ساتھ بہتر’’ ورکنگ ریلیشن شپ‘‘ہماری قومی ضرورت ہے ۔ 9/11کے بعد چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے دینی مدارس نے خود کو زیادہ منظم کیا ، جس کے نتیجے میں ان کا مذکورہ مشترکہ اور متفقہ پلیٹ فارم بھی معرضِ عمل میں آیا ،اگرچہ ایسے مستقل فورم کی کی تشکیل کی ضرورت ،ریاستی سطح پر کم وپیش 40سال قبل’’قومی ادارہ برائے دینی مدارس پاکستان ‘‘کے نام سے اس وقت سامنے آئی تھی ،جب 1979میں ، دینی مدارس کی ضابطہ بندی اور ان کے نصاب تعلیم کو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے حکومتی اور سرکاری طور پر ، صدر پاکستان نے ڈاکٹر عبدالواحد ہالے پوتہ کی سربراہی میں ’’قومی کمیٹی برائے دینی مدارس ‘‘تشکیل دی تھی۔ اسی کمیٹی کی سفارش پر مدارس کی ڈگری ’’شہادۃ العالمیہ فی العلوم العربیہ والاسلامیہ‘‘کو تدریسی اور تحقیقی مقاصد کے لیے ایم اے عربی /اسلامیات کے برابر قرار دیا گیاتھا ، جس کی رو سے اس ڈگری کے حاملین سکولز اور کالجز میں تدریس کرنے اور مزید اعلیٰ تعلیم و تحقیق یعنی ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے سرگرم عمل رہنے کے قابل ہوئے ،’’قومی کمیٹی برائے دینی مدارس‘‘ نے سفارش کی تھی کہ اس وقت دینی مدارس کے جملہ امور ، ان کی مجالس انتظامیہ اور مہتممین سرانجام دیتے ہیں اور مختلف مسالک نے اپنے اپنے مدارس پر مبنی وفاق اور تنظیمیں بھی قائم کی ہوئیں ہیں، مگر کئی مدارس ایسے ہیں جو کسی وفاق /تنظیم سے ملحق نہ ہیں ، اورملک میں کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ،جو تمام مسالک کے مدارس اور ان کے وفاقوں اور تنظیموں کے درمیان رابطے کا کام دے ۔ چنانچہ قومی کمیٹی ایک خود مختار ’’قومی ادارہ برائے دینی مدارس پاکستان ‘‘کے قیام کی تجویز پیش کرتا ہے ،جو مدارس کے امتحانات ،نتائج کے اعلان ، اسناد کی تقسیم ،نصاب کی تدوین اور اس پر نظر ثانی جیسے اہم امور سرانجام دے گا۔ یہ ادارہ مدارس،اساتذہ اورطلبہ کی فلاح وبہبود کے لیے بھی قومی کمیٹی کی سفارشات کے نتائج اوران پر عملدرآمد کو مانیٹر کرئے گا۔ اس قومی ادارے کی مجوزہ ہیت ترکیبی اور تنظیمی میں یہ بات ملحوظ رکھی گئی تھی کہ ہمارے مدارس ،عام عصری نظامِ تعلیم سے مربوط ہوں،جس کے لیے ملک کے چاروں بڑے مذہبی مسالک ، وزارت تعلیم ،وزارت مذہبی امور ،یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اور انٹر بورڈ کمیٹی کو اس ادارے میں مناسب نمائندگی میسر ہو گی۔ صدافسوس ! یہ ادارہ ’’بوجوہ ‘‘تشکیل نہ پاسکا ،اور دینی مدارس کے حوالے سے ہم اپنی قومی اور ملّی ذمہ داریوں سے عہدہ برآمد نہ ہوسکے ۔ جس کے ازالے کے لیے ، اب وقتاً فوقتاً کوشش تو ہوتی ہے مگر وقت بہت زیادہ بیت چکا اور پانی کافی زیادہ پلوں کے نیچے سے گذر چکا ہے۔