کچھ دن پہلے چیف آف آرمی سٹاف کے صاحبزادے رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ والدین کے لئے یہ ایک اہم اورانتہائی خوشی کا لمحہ ہوتا ہے لیکن ہماری سیاسی تاریخ کی بھی یہ ایک بہت اہم تقریب ثابت ہوئی۔ اب تک فوج اور اس سے متعلقہ اداروں کے بارے میں ناقدین سیاستدانوں کو تقسیم کر کے اپنا کام نکالنے اور جمہوریت کو بدنام کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے چلے آئے ہیںلیکن آرمی چیف کے صاحبزادے کے ولیمہ کی تقریب اس سارے تاثر کی نفی کر رہی تھی۔ ایک ایسی قومی ہم آہنگی اور یگانگت کی فضا تھی کہ بے اختیار کہنا پڑتا ہے کہ: تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے اعتزاز احسن اور چوہدری نثار جواس تقریب میں اکٹھا ہونے سے پہلے تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ایسے شیر و شکر نظر آئے کہ ایک لمحہ کے لئے بھی دونوں الگ نہیں ہوئے اور پوری تقریب میں اکٹھے بیٹھے بھی رہے اور اگر کسی کو ملنا تھا تو بھی اکٹھے جا کر ملے۔ سیاست کے ہر اہم شخص کو مدعو کیا گیا اور سبھی پہنچے بھی۔ماحول ایسا بیان کیا جاتا ہے کہ جیسے ایک ہی گھر کے افراد مل کر اس خوشی کا بھر پور لطف لے رہے ہوں۔ صدر عارف علوی ہو ںیا وزیر اعظم عمران خان، بلاول بھٹو یا خواجہ آصف سبھی دمکتے چہروں اور مسکراہٹ کے ساتھ پہنچ رہے تھے اور آرمی چیف خود دروازے پر سب کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ اس میں بڑے چھوٹے کی کوئی تمیز نہیں تھی ،سب کو دلہے کے والد خود مل رہے تھے ۔حاضرین بھی تمام گلے شکوے بھلا کرخوش گپیوں میں مصروف رہے۔ اب ذرا اس تقریب سے باہر نکل آئیے اور سینیٹ کے گزشتہ چند دنوں کے اجلاس میں جھانکئے یا پھر قومی اسمبلی کے اب تک ہونے وا لے اجلاسوں کا اجمالی جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ ’’چار خون دے پیاسے‘‘ فلم کی شوٹنگ ہو رہی ہے۔سیاسی مار دھاڑ جاری ہے، ایسی لفظی گولہ باری کہ خدا کی پناہ۔کیا پارلیمنٹ ہی رہ گئی ہے طبع آزمائی کے لئے۔ملک کا سب سے بڑا فورم جس کو مکمل عوامی تائید حاصل ہے۔ ہر مکتبہء فکر، سوچ، کمیونٹی کی نمائندگی ہے لیکن یہ ایک اشرافیہ کا ڈبیٹنگ کلب بن کر رہ گیا ہے، عوامی مسائل کی کوئی بات نہیں کرتا۔ جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کا کمیٹی سسٹم سب سے اہم ہے۔ قومی اسمبلی کو تشکیل پائے تین ماہ ہو چکے لیکن ایک بھی کمیٹی نہیں بن پائی۔ اگر زور ہے تو پبلک اکائو نٹس کمیٹی کے سربراہ شہباز شریف ہوں گے یا نہیں ہونگے‘ پر۔ مجھے اس وقت جمعیت علمائے اسلام کے حافظ حسین احمد بہت یاد آ رہے ہیں۔بہت مرنجاں مرنج شخصیت اور ایسا برجستہ جملہ کہتے ہیں کہ آپ بے اختیارمسکرا اٹھتے ہیں۔ 9 جنوری 1993ء کی بات ہے ایک روز پہلے آرمی چیف جنرل آصف جنجوعہ ہارٹ اٹیک کا شکار ہو کر وفات پا گئے۔ انکا جنازہ اگلے روز پڑھایا گیا۔ اس میں صدر اور وزیر اعظم نے بھی شرکت کرنا تھی ۔اس نا گہانی واقعے سے پورا ملک صدمے میں تھا۔ اس وقت میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے اور اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان سے انکی خوب لڑائی چل رہی تھی‘ دونوں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں تھے۔حافظ حسین احمد سے پارلیمنٹ میں گپ شپ ہو رہی تھی کہ صدر اور وزیر اعظم جنرل آصف جنجوعہ کے جنازے میں اکٹھے شریک ہونے جا رہے ہیں، تو حافظ صاحب نے برجستہ فرمایا کہ اب یہ دونوں حضرات کسی کے جنازے پر ہی اکٹھے ہو سکتے ہیں اور دونوں صاحبان نے اکٹھے نماز جنازہ ادا کی۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے منتخب قائدین اور انکے حواریوں کو اپنے سیاسی رویے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے‘ کہیں ایسا نہ ہو وہ کسی کے جنازے پر بھی اکٹھے نہ ہو پائیں۔ ابھی تک کی صورتحال بہت مایوس کن ہے ۔ چیئرمین سینیٹ نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو سینیٹ میں ہنگامہ آرائی کا باعث بننے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے انکے ایوان میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے جو صرف فواد چوہدری کے معافی مانگنے کی صورت میں ختم ہو گی۔ اس فیصلے کے حوالے سے اگرچہ بہت سے جائز تحفظات ہیں جس میں مشاہد اللہ خان کا رویہ اور زبان کو نظر انداز کیا جانا شامل ہے جو کہ کہیں زیادہ اشتعال انگیز تھی۔ تا ہم اس رولنگ کے بعد فواد چوہدری کو چاہئیے تھا کہ وہ چیئرمین سینیٹ کی رولنگ کا احترام کرتے ہوئے ایوان سے معافی مانگ لیتے جو کہ ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔ وہ قومی اسمبلی میں ایک سے زائد مرتبہ اپنے الفاظ اور رویے کی معافی مانگ چکے ہیں۔لیکن حکومتی جماعت نے بشمول وزیر اعظم اسکو اپنی توہین سمجھتے ہوئے ایک ایسا رویہ اپنایا ہے جو بقول سینیٹررضا ربّانی پارلیمنٹ میں دراڑیں ڈال رہا ہے۔اگرچہ اب اس بات کی تردید کی جارہی ہے کہ وزیر اعظم نے کابینہ کے اجلاس میں اس مسئلے پر کوئی بات کی ہے لیکن خود کابینہ کے اجلاس کی بریفنگ میں فواد چوہدری وزیر اعظم کا یہ فرمان سنا چکے ہیں کہ وزراء کی توہین کی کسی کو اجازت نہیں دی جائیگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہ بھی کہا کہ وزراء بھی دیکھیں گے انہیں ایوان بالا میں جانا ہے کہ نہیں۔اس ساری گفتگو سے تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ حکومت کے کچھ بزرجمہروں نے اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی مارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔وزیر اعظم نے بظاہر اس معاملے کو حل کرنے کے لئے پرویز خٹک کی ڈیوٹی لگائی ہے اور جمعہ کے روز خود بھی چیئرمین سینیٹ سے بات کی ہے۔امید کی جا سکتی ہے کہ بچہ پارٹی سے اگر یہ معاملہ محفوظ رہا اور پرویز خٹک اور وزیر اعظم نے ہی اسکو حل کیا تو ایک بڑا خطرہ ٹل جائے گا۔ورنہ حکومت کے سو دن پورے ہونے کو ہیں‘ ساری اپوزیشن حکومت کا پوسٹ مارٹم کرنے کے لئے چھریاں تیز کر کے بیٹھی ہوئی ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین کی رولنگ پر عملدرآمدہی واحد حل ہے اس سے پارلیمنٹ کی توقیر بھی بڑھے گی اور حکومت کی بھی جے جے کار ہو گی کہ وہ ملک کے سب سے بڑے عوامی ادارے کے خود کو تابع سمجھتی ہے۔