آغا خان یونیورسٹی کے زیراہتمام انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ نے حال ہی میں جدید سائنسی بنیادوں پر ایک سٹڈی کا اہتمام کیا ہے۔ سٹڈی کابنیادی مقصدمڈل جماعتوں (Lower Secondary Classes)کے طالب علموں کی تعلیمی استعداد کا اندازہ کرنا تھا۔ملک بھر میںواقع 153 سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں سے پانچویں، چھٹی اور آٹھویں جماعتوں کے 15,000 طالب علموں کو بلا تخصیص علاقائی، نسلی یا سیاسی تعصب وتفریق کے اُٹھا کر ان کے تعلیمی سال کے مطابق خصوصی طور پر ترتیب دیئے گئے امتحانات سے گزارا گیا۔ سٹڈی کے نتائج ہمارے لئے ہر گز حیران کن نہیں ہونے چاہئیں کہ تعلیم کا شعبہ ہماری تمام حکومتوں ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لئے بھی اس اہمیت کاحامل نہیں رہا کہ جس کا وہ حقدار ہے۔ حکومت فوجی آمروں کی ہو یا منتخب سویلین حکمرانوں کی ،تعلیم کا شعبہ ہمیشہ نچلی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ 74 سالہ قومی زندگی کے بعد ہم جہاں دیگر شعبوں میں زوال کا شکار ہوئے ہیں ، تعلیم کے شعبے میں پستی کا سفر کہیں بڑھ کر ہے۔ کہنے کو آج پاکستان میں شرح خواندگی 60فی صد کے آس پاس بتائی جاتی ہے،تاہم اس’ خواندہ‘ آبادی کی تعلیمی استعداد کا معیار کیا ہے‘ اس کا اندازہ مذکورہ سٹڈی کے نتائج سے لگایا جا سکتا ہے۔ حساب کے پرچے میں ایک سو بچوں میں سے صرف 27 بچے اپنے اپنے تعلیمی سال کے مطابق مضمون کی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کر سکے۔ دیگر سائنسی مضامین میں 34 فیصد بچے متعین درجے کے مطابق ترتیب دیئے گئے سوالات کے تسلی بخش جوابات دے سکے۔اگرچہ سرکاری سکولوں کی نسبت پرائیویٹ اداروں میں زیرِ تعلیم طالبعلموں نے کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، تاہم پوری قوم کے لئے یہ حقیقت آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہونی چاہیے کہ 15,000 بچوں میں سے صرف ایک فی صد یعنی محض150نے 80 فیصد سے زیادہ نمبر سکور کئے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ طالب علموں کے کسی گروپ کو اگرایسے امتحان سے گزارا جائے تو ان میں سے اکثریت کو 80 فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کرنے چاہئیں۔سٹڈی کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ اس باب میں کسی اورکو نہیں، فیصلہ ساز طبقے کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جانا چاہیئے۔ وطنِ عزیز کی 74 سالہ تاریخ میںجہاں کئی ایک حکمرانوں نے تعلیم کے شعبے کو یکسر نظر انداز کیا تو وہیں اس باب میں ’ماڈل سکولز ‘ قائم کر کے کبھی کبھار کچھ شعبدہ بازی کا بھی مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے۔ یہ سکول بھاری سرکاری رقوم سے قائم کئے گئے اور ان کوعام سرکاری سکولوں کا پیٹ کاٹ کر ترجیحی فنڈنگ کے ذریعے ہی چلایا جاتا رہا۔دوسری طرف الیٹ طبقے کے لئے الیٹ پرائیویٹ سکولوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔سرکاری سکولوں کے کھنڈرات پر قائم کیا گیایہ نیٹ ورک انتہائی مختصر مگر بے حد طاقتورالیٹ طبقے کی اگلی نسل پیدا کرنے میں مصروف ہے ۔ بد حال سرکاری درس گاہوں اور گلی محلوں میں قائم پرائیویٹ سکولوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے اندر ان الیٹ پرائیویٹ اور سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ’ماڈل سکولز‘ کے جزیروں سے فیض یاب ہو نے والے طالبعلموں کی تعداد خوفناک حد تک قلیل ہے۔ ایک طرف جہاں سرکاری سکولوں میں زیرِ تعلیم بچے زندگی کی دوڑ کے پہلے حصے میں ہی بہت پیچھے رہ جاتے ہیں تو دوسری طرف الیٹ سکولوں سے فارغ التحصیل ہو نے والوں کی قلیل تعداد زندگی کے تمام موثر شعبوں کے اندر حاوی ہو چکی ہے۔انہی الیٹ درسگاہوں کے بچے بالآخر مغربی ممالک کی یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں۔متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بیرونِ ملک یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم طالب علموں کی ترجیح اسی ملک کی شہریت کا حصول ہوتا ہے کہ جہاں انہیں ان کی صلاحیتوں اور کارکردگی کے مطابق میرٹ پرترقی اور آسودہ حال زندگی کے مواقع دستیاب نظر آتے ہیں۔اپنا وطن مگر ان کے اندر سے نہیں نکلتا۔دوسری طرف الیٹ طبقے کے افراد میں سے کئی جب مغربی یونیورسٹیوں سے لوٹتے ہیں تو اکثران کو اپنے آپ سے گھن آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اکثر انسانی حقوق اورشخصی آزادیوں پر بھاشن دینے لگتے ہیں۔نظامِ تعلیم سے اٹھنے والی سڑانڈ پر کم ہی بات کرتے ہیں۔ زیرِ نظر سٹڈی کے نتائج کو سامنے رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اپنے تعلیمی برسوں سے میل کھاتی تعلیمی استعداد ، بالخصوص سائنسی مضامین میں سمجھ بوجھ کا قابلِ قبول مظاہرہ کرنے میں خوفناک ناکامی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ان تمام مغربی ممالک میں کہ جہاں پاکستانی شناخت رکھنے والے افرادکسی زمانے میں کلیدی عہدوںپرچھائے رہتے تھے، ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اب وہاں پاکستانی تارکینِ وطن کی اکثریت روزگار کے ان شعبوں سے وابستہ بتائی جاتی ہے، جہاں تعلیمی مہارت درکار نہیں ہوتی۔اس کے مقابلے میںانہی ملکوں کے اندر اہم سرکاری، سیاسی، تعلیمی ، تکنیکی اور کاروباری شعبوں میں کلیدی عہدوں پر ہمارے ہی خطے کے دیگر ممالک سے ہجرت کرنے والے سمندر پار شہری قابض ہوتے نظر آتے ہیں۔ زیرِ نظر سٹڈی کا ہی ایک اور نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ سائنسی مضامین میں لڑکوں کے برابرمگر ریاضی کے مضمون میں بالخصوص، لڑکیوں نے نسبتاََ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بنگلہ دیش نے حالیہ عشروں میں عورتوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی ہے۔ چنانچہ بنا کسی سالانہ احتجاج یا کسی مخصوص نعرے کے گرد گھومتی کسی تحریک کے ،بنگلہ دیشی عورتوں نے گزرتے برسوں معاشرے میں اپنا مقام خود پیدا کر لیا ہے ۔ بنگلہ دیشی عورتیں مختصر گھرانوں کے فوائد سے آگاہ ہیں، آبادی کو قابو میں لا چکی ہیں۔عورتوں کی کاروبارِ زندگی میں بھر پور شراکت داری کے بل بوتے پر ہی بنگلہ دیش کپاس میں خود کفیل نہ ہونے کے باوجود چین کے بعد گارمنٹس کا دنیا میں سب سے بڑا ایکسپورٹر بن چکا ہے۔ آج اس کے تمام معاشی اور معاشرتی اشاریئے خطے کے دیگر ممالک سے کہیں بہتر ہیں۔ پاکستان کی آبادی نصف سے زائدخواتین پر مشتمل ہے۔ پاکستانی عورتوں کی صلاحیتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت کے لئے بھی کریش پروگرام چلائے جائیں۔ ڈاکٹرپرویز ہود بھائی میری نظر میں ایک قابل استاد مگرکئی معاشرتی معاملات میں غیر متوازن فکر کے مالک ہیں۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے۔ڈاکٹر صاحب اکثر پاکستانی درسگاہوں میںرائج رٹا سسٹم، وہاںزیرِ تعلیم طالب علموں کی ذہنی افتاد ، حتّی کہ یونیورسٹی اساتذہ کی فکری کم مائیگی پر بھی نوحہ گری کرتے رہتے ہیں۔ کم از کم اس باب میں تو ڈاکٹر صاحب کی نوحہ گری میں ہم آواز ہوا جا سکتا ہے۔ ملک میں صرف نصابِ تعلیم نہیں پورا نظام ِتعلیم بدلنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے شعبے میں ہمیں قومی سطح اور جنگی بنیادوں پر کام کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔