کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو تو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا دل نے در کھول دیے ہیں تری آسانی کو میرے پیارے قارئین: میں نے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ دسویں قومی کتاب میلے میں ہونے والے مشاعرہ کا تذکرہ کروں گا مگر اس سے پہلے مجھے یہ بیان کرنا ہے کہ جب ہم شعرا اکٹھے ہوتے ہیں تو جہاں لطف لطف کی باتیں ہوتی ہیں وہاں کچھ نایاب اشعار بھی سننے کو ملتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے اشعار جو اپنے تخلیق کاروں سے آگے نکل جاتے ہیں۔ چائے کیلئے ہم اکٹھے ہوئے تو ایسے ہی انمول موتی ہاتھ آئے۔ سوچا کہ میرے پڑھنے والے ان سے کیوں محروم رہیں۔ فاطمہ حسن متحرک ہیں پھر کبھی قمر ریاض نے لقمہ دیا تو کبھی علی یاسر نے: ایک پتھر کہ دستِ یار میں ہے پھول بننے کے انتظار میں ہے (قمر جلیل) تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا (حفیظ ہوشیار پوری) گفتگو کسی سے ہو تیرا دھیان رہتا ہے ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا (فرید جاوید) کوہساروں کا فیض ہے ورنہ کون دیتا ہے دوسری آواز (اظہار شاہین) بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے اڑتے ہوئے خوبصورت پرندے جیسا شعر اپنے تخلیق کار کے نام سے محروم رہتا ہے مثلاً: کبھی کبھی تو وہ اتنی رسائی دیتا ہے وہ سوچتا ہے تو مجھ کو سنائی دیتا ہے اب مشاعرے کا بھی تذکرہ ہو جائے کہ اس مرتبہ مشاعرہ پہلے ہی دن رکھ لیا گیا۔ پہلے تو ہم ڈرے ہوئے تھے کہ اسی ہال میں ایک کانفرنس کے مشاعرہ میں ساڑھے چار صد شاعر تھے۔ تقریباً سب کے سب سننے والے پچھلی مرتبہ بھی پڑھانے کیلئے پرچیاں ڈالی گئیں تو مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہو گئی۔ اب کے شکر ہے صرف ساٹھ ستر شاعر تھے لیکن اچھا یہ ہوا کہ محبوب ظفر کے ذہن رسا میں یہ آ گیا کہ اب کے پہلے سینئر شعرا کو سنا جائے گا کیونکہ عام چلن یہ ہے کہ جونیئر اپنا کلام سنا کر کھسک جاتے ہیں، اب کے جب سینئر شعرا پڑھ گئے بعد میں آنے والوں میں کچھ بحر بے کراں والے تھے اور کچھ سرے سے فارغ خیر اچھا مشاعرہ تھا اب کے محبوب ظفر کے ساتھ کو کمپئرنگ خوبصورت شاعرہ عابدہ تقی نے کی، چلئے ہم سب سے پہلے مشاعرے کے صدر، شائستہ و صاحبِ طرز شاعر افتخار عارف کے دو شعر لکھے دیتے ہیں: بدگمانی میں کبھی، گاہ خوش اندیشی میں کٹ گئی عمر مراسم کی کمی بیشی میں اک کتاب اور نئی آئی نئے خواب کے ساتھ اک چراغ اور جلا حجلہ درویشی میں اور پھر پڑھنے کا انداز بھی افتخار عارف پر ختم ہے۔ ایک شعر مشاعرے کی مہمان خصوصی فاطمہ حسن کا بھی پڑھ لیں: شبنمی پتوں پہ آنکھیں رکھ کے دل ہلکا کیا اس جگہ کوئی نہیں تھا ساتھ رونے کے لئے سٹیج پر ہمارے کوئٹہ سے آئے ہوئے نفیس و شائستہ شاعر جناب آغا ناصر تھے۔ نذیر تبسم اور ڈاکٹر صغریٰ صدف بھی اپنے اپنے صوبوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ نذیر تبسم کا شعر یاد آ گیا: پھر کسی اور کو دل میں نہیں آنے دیتے یعنی ہم پوری دیانت سے تجھے سوچتے ہیں اب ڈاکٹر صغریٰ صدف کا شعر کیوں رہ جائے: جیون میں کوئی اور تھا دل میں تھا کوئی اور دونوں سے دل کا حال چھپانا پڑا مجھے میرے محترم و معزز قارئین اصل میں میرا خیال یہی تھا کہ زیادہ سے زیادہ دوستوں کے اشعار آپ تک پہنچادوں کہ یہ ان کا حق ہے۔ یقیناً سب کے اشعار لکھے بھی نہیں جا سکتے۔ اس مشاعرے میں کئی نوجوان شعرا بھی تھے۔ ایک مرتبہ مستنصر حسین تارڑ صاحب نے اپنے ایک پروگرام میں مجھے مخاطب کر کے کہا کہ سعد اللہ شاہ اور میں ایک ہی اخبار میں لکھتے ہیں اور میں اسے تب سے جانتا ہوں جب اس کی ڈاڑھی سفید ہوا کرتی تھی۔ خالد شریف صاحب بھی اس مرتبہ مشاعرے میں موجود تھے انہوں نے بھی اپنا مشہور زمانہ شعر پڑھا : بچھڑا وہ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا اب دو تین نوجوانوں کے اشعار: تم جو چاہو تو مجھے چھوڑ کے جا سکتے ہو میں نے یہ رنج کئی بار اٹھایا ہوا ہے (قمر ریاض) ہے کون شاعرِ خوش فکر کون ہے فنکار غزل بتائے گی جو اس میں نام کرکے گیا (علی یاسر) روح میں مستی بھر دیتا ہے عشق قلندر کر دیتا ہے (سلیمان جاذب) مشاعرہ تو روح کی غذا تھا۔ جب ہم رات گئے مشاعرہ پڑھ کر ڈائننگ ہال کی طرف گئے تو وہاں تالے پڑے تھے۔ اللہ اللہ کرکے بریانی کہیں سے آئی۔ لگتا تو یہی تھا کہ کسی ہوٹل سے آئی ہے۔ مگر اس مرتبہ انتظام کام و دہن کچھ زیادہ اچھا نہیں تھا۔ شاید یہ بھی خان صاحب کی بچت سکیم کا حصہ ہو۔