مکرمی!کسی بھی قوم یا ملک کے دوبنیادی اثاثے ہوتے ہیں، اس کے باسی یا اسکے ذرائع پیداوار اور وسائل۔ اگر ہم پاکستان کے حکمرانوں کے بیانات اور تقاریر کاجائزہ لیں، ذرائع ابلاغ کے پروگراموں اور ترانوں پر غور کریں تو ہمیں ہر طرف سے ’’قومی مفادات‘‘، ’’حب الوطنی‘‘، ’’ملکی سا لمیت‘‘ وغیرہ کے نعرے ہی نعرے سنائی دیتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ان حکمران طبقات کو ملک اور وطن کا اتنا درد ہے کہ وہ جان بھی دے دیں گے۔ لیکن اگر ان کی پالیسیوں، عزائم اور عملی وارداتوں کا جائزہ لیں تو یہ وطن پر جان نچھاور کرنے والے حکمران دوہرے معیاروں منافقت اور وطن فروشی کے سردار نظر آئیں گے۔ حب الوطنی تو ان میں نظر ہی نہیں آتی ۔جہاں تک اس ملک کی محنت، صنعت وزراعت، معدنیات اور دوسرے اثاثوں اور معاشی شعبوں کا جائزہ لیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ کس بے دردی سے یہ ان قومی اثاثوں کو اجاڑ رہے ہیں یہ اس ملک کے اثاثوں کو اس گھریلو سامان کی طرح اونے پونے داموں بیچ دینا چاہتے ہیں جیسے کوئی بگڑا ہوا آوارہ سپوت اپنے خاندانی اثاثوں کو فروخت کرکے اپنی عیاشی اور بدکاری کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ہمارے حکمران ان اجارہ داریوں سے لیے گئے کمیشنوں کو اپنے پہلے سے موجود دولت کے انباروں میں مزید اضافے کی زہریلی ہوس کی پیاس کو مٹانے کے لیے استعمال کریں گے۔حکمرانوں کی سب سے زیادہ شوریدہ دلیل یہ ہے کہ اسٹیل ملز، پی آئی اے اور ریلوے ایسے ادارے ہیں جو تقریباً 500 ارب روپے کے خسارے کا بوجھ ریاست پر ڈال رہے ہیں اور اس سے ملک کی معیشت برباد ہورہی ہے۔ لیکن اگر ان تمام اداروں کی لسٹ کا جائزہ لیا جائے جن کو سرمائے کی منڈی میں نیلام کیا جارہا ہے تو یہ پتہ چلے گا کہ ان میں سے بہت سے ادارے خسارے کی بجائے حکومت کو بہت زیادہ منافع دے رہے ہیں۔نیلامی کے بعد پہلا وار غریب ملازمین پر آتا ہے ۔پی ٹی سی ایل میں بھی یہی ہوا جبکہ اس سے قبل کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی نیلامی کے بعد بھی ہوا۔ سات ہزار ملازمین کو برطرف کردیا گیا۔پی ٹی سی ایل کے تو 80 کروڑ ڈالر بھی اتصالات نے روک رکھے ہیں ۔جو سراسر ظلم کے مترادف ہے ۔حکمران طبقہ اگر صرف اخلاص نیت سے کام کرے تو پھر کسی بھی ادارے کو پرایئویٹ کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو گی ۔اس لیے آج حکمران طبقہ قومی اثاثوں کو اونے پونے پرائیویٹ کرنے کی بجائے اچھی مینجمنٹ سے انھیں چلائے تو ہر ادارہ منافع دے گا۔ آئی پی پی اور دیگر اداروں کے حصہ دار بھی کابینہ میں موجود ہیں۔ اس لیے نجکاری سے نہ تو قرضے اتریں گے نہ ہی ملک کا خسارہ دور ہوگا اور نہ ہی عوام کے لیے یہ سہولیات فراہم کرسکیں گے۔ بلکہ اس نجکاری سے بیروزگاری،مہنگائی، غربت، محرومی اور ذلت میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔ ( ساجد کاظمی )