ہم میں کتنے ہی لوگ ہیں جودن رات انسانوں کی بہتری اور فلاح کیلئے کوشاں ہیں مگر عام آدمی کی زندگی مشکلوں اور مسائل کے گرداب میں اُلجھتی جارہی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے ریاست مدینہ اور فلاحی ریاست کے قیام کیلئے عوام کو اُمید دلائی تھی مگرساڑھے تین سال گذرنے کے باوجود یہ خواب حقیقت کا روپ دھارنے کی بجائے ایک ڈارؤنے خواب کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔معیشت سکڑتی اور بے روزگاری بڑھتی رہی۔مہنگائی اور بدانتظامی کے باعث اپوزیشن کو یکجا کردیا جس کے نتیجے میں تحریک عدم اعتمادپیش ہوئی اور نتیجتاًکپتان کو پویلین واپس لوٹنا پڑا۔مخلوط حکومت قائم تو ہوگئی مگر گذشتہ ایک ماہ کے دوران مجال ہے کہ حکومتی نعروں اور دعووں کے مطابق عوام کو کوئی ریلیف مل سکا ہو۔ یقینی طورپر کسی بھی نئی حکومت کو معاشی پالیسیوں میں اصلاحات اور سمت ٹھیک کرنے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے مگر ڈالر کی اُڑان سوائے پہلے دن کے کبھی نہیں رُک سکی۔ مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کا سلسلہ مزید شدت اختیار کرررہا ہے۔اتحادیوں میں وزارتوں کی تقسیم تو ہوچکی مگر ہر جانب ہُو کا عالم ہے۔ آگے کیا ہوگا‘یہ طے ہونے کیلئے لندن میں بیٹھک لگ چکی ہے ۔ اقتدارکے ایوانوں میں ہلچل اور بے چینی تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ خلق خدااور ملکی معیشت بہت سی مشکلات سے دوچار ہیں۔ سرکاری اداروں اور حکومتی پالیسیوں میں استحکام کیلئے ہرنگاہ مضطرب ہے ۔ اعلی عہدوںپر ایک مرتبہ پھر تبدیلیوں اور تقرریوں کی تیاری ہے۔ وزیراعظم وفاقی وزراء او ربیوروکریسی کی خالی جمع خرچ اور پریزنٹیشن کی بجائے عوام کو فوری ریلیف‘ معاشی سرگرمیوں اور پالیسیوں کوبہتر کرنا چاہتے ہیں مگر خزانہ میں گنجائش نہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کی خواہش ہے کہ الیکشن 2023ء میں ہوں مگر زمینی حقائق اُنکی خواہش کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ وزیراعظم آفس کے ایک سینئر عہدیدار نے روداد بیان کرتے ہوئے کہا کہ و زیراعظم شہباز شریف نے گرینڈ ریلیف پیکج کیلئے مختلف اداروں کے سربراہان سے تفصیلی ملاقاتیں کرکے تجاویز حاصل کیں مگر وزیراعظم تین اقدامات کیلئے کمر کس چکے ہیں جن کے بغیر عوام میں حکومت کی ساکھ کو بچانا ممکن نہیں۔ سٹیٹ بنک کے پالیسی ریٹ میں کمی،بجلی‘ گیس کی قیمتوں میں مجوزہ اضافہ موخر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ تاہم موٹرسائیکل سواروں کو سبسڈی دینے کیلئے الگ پلان مرتب کیا جارہا ہے ۔مگر مسئلہ ایک ہی ہے کہ آئی ایم ایف پیکج ابھی تک ملا نہیں اور دوست ممالک کا پیکج بھی کھٹائی میںپڑا ہوا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ حکومت مجبورا وہی اقداما ت اٹھانے جارہی ہے جو گذشتہ دوحکومتوں نے عوام کو مہنگائی سے بچانے کیلئے اٹھائے۔ماضی میں سرکاری املاک کو گروی رکھ کر قرض لیا گیا تھا تو موجودہ حکومت کے پاس بھی بھاری قرض لینے کے سوا کوئی حل موجود نہیں۔ سالانہ بجلی چوری اور لاسز250ارب روپے سے زائد اورگیس کے شعبے میں سالانہ نقصان 40ارب روپے سے تجاوز ہوچکا ہے۔ بجلی اور گیس کے نقصانات پورے کرنے کیلئے قیمت میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے مگر آج گھریلو صار ف بجلی کا بل ادا کرنے کے قابل رہا ہے نہ گیس کا۔ وفاقی حکومت کیلئے پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں اور نئے الیکشن کے اعلان کے مطالبے کیساتھ وفاقی حکومت کیلئے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنا سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی تمام تر کوششوں کے باوجود لوڈشیڈنگ ختم کرنا ناممکن ہوچکا ہے۔ وزارت توانائی نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے متعلق ایک حالیہ رپورٹ کے ذریعے وزیراعظم کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مہنگے فیول اور فنڈز کی قلت کے باعث لوڈشیڈنگ ختم کرنا ممکن نہیں رہا۔دوماہ تک جزوی لوڈشیڈنگ جاری رکھنا عوام اور قومی خزانے کے فائدے میں ہے۔سرکاری اور نجی پاور پلانٹس کو پوری صلاحیت پر چلانے کیلئے فوری طور پر 80ارب روپے درکار ہیں۔مہنگے فرنس آئل اور ایل این جی پر اضافی بجلی پیدا کی توہرماہ بجلی ریکارڈ مہنگی ہوگی۔کم بجلی پیدا کرکے اربوں روپے کے نقصان اور پاور ٹیرف میں اضافے سے بچا جاسکتا ہے۔وزیراعظم نے دوست ممالک سے پیکج ملنے تک لوڈمینجمنٹ جاری رکھنے کرنے کی اجازت دیتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کو قطر سے اضافی ایل این جی اور نئی شرائط پر معاہدے کیلئے شاہد خاقان عباسی کو ٹاسک سونپ دیاہے۔سستی توانائی ہی حکومت کو درپیش چیلنجز سے نجات کاواحد حل ہے۔ وزیراعظم کی ٹیم نے جس دن سستی توانائی کا حل تلاش اور نافذ کردیا وہی دن حکومت اور عوام کیلئے پائیدار تبدیلی اور ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ ملک اور عوام کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے نفرت کی بجائے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر فیصلے کئے جائیں ۔قومی یکجہتی اور ہم آہنگی وقت کی سب سے بڑ ی ضرورت بن چکی ہے۔اگر نئے الیکشن ملک کو درپیش کڑے چیلنج کا حل ثابت ہوسکتے ہیں تو فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کرکے ملک میں جاری غیریقینی کی فضا کو ختم کیا جائے تاہم طے کرلیا جائے کہ الیکشن کے جو بھی نتائج ہوں گے تمام جماعتیں کھلے دل کیساتھ قبول کریں گی۔ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسکے دائیں کان میںاذان اور بائیں کان میں اقامت کیوں پڑھی جاتی ہے۔یہ سوال میں نے کئی لوگوں سے پوچھا مگر حیران کن طور پر کسی سے جواب حاصل نہیںکرسکا۔ آج وہی سوال آپ سے پوچھتا ہوں۔سجادہ نشین دربار غوث اعظم بغداد الشیخ سید خالد عبدالقادرمنصورالدین الجیلانی نے فروری 2020ء میں بری امام ہاؤس میں سجی روح پرور محفل سے خطاب کے دوران جیسے ہی سوال کیاتو عقیدت مندوں میں سناٹا چھا گیا۔ دوصاحبان نے جواب دینے کی سعی کی مگر مطلوبہ جواب نہ مل سکا۔الشیخ سید خالد عبدالقادرمنصورالدین الجیلانی نے حاضرین کی توجہ اور یکسوئی حاصل کرنے کے بعد اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوے کہا کہ نمازجنازہ واحدایسی نماز ہے جس سے قبل اذان دی جاتی ہے نہ ہی اقامت پڑھی جاتی ہے۔انسان کی دنیا میں آمد کیساتھ ہی اس نماز کی تیاری ایک بڑا پیغام ہے کہ دنیا میں قیام مختصر ہے،انسانوں کی بہتری اور فلاح کیلئے کردار ادا کریں نہ جانے کب ہماری زندگی کا چراغ بجھ جائے ۔یہ ایک ایسا راز اور حقیقت ہے کہ جس سے بیشتر افراد بے خبر زندگی میںسرپٹ دوڑے جاتے ہیں۔