سوئٹزرلینڈ کے بیسل شہر میں 1897ء کے ایک دن دنیا بھر کے تمام یہودی خفیہ طور پر اکٹھے ہوئے۔ اس اجتماع کو آج کی دنیا، صیہونیت کی پہلی عالمی کانفرنس کے طور پر بخوبی جانتی ہے۔ مدتوں یہ تنظیم، اس کے مقاصد، ممبران کی تعداد اور وسائل خفیہ رہے۔ یورپی اور امریکی حکمرانوں میں بھی صرف وہی چند افراد باخبر تھے ،جو اس عالمی سازش میں شریک تھے۔ اس پہلی کانفرنس میں ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں حساب (Mathematics) کا پروفیسر ہیرمن ہیرسش شیپرا (Hermenn Hirsch Sehapira)بھی موجود تھا۔ یہ لتھووینیا کا ایک یہودی ربائی تھا جو عبرانی زبان اور ادب پر عبور رکھتا تھا، مگر اس نے ساتھ ساتھ سیکولر علم کے حصول کیلئے روس کو خیرباد کہا اور برلن میں آباد ہو کر ،تعلیم حاصل کرنا شروع کردی،اور وہ 1833ء میں جرمن یونیورسٹیوں میں اعلیٰ علمی مرتبے ’’پرئیوٹوزنٹ‘‘ (Privntozent)پر فائز کر دیا گیا۔ صیہونیت کی عالمی کانفرنس اس کی زندگی کا خواب تھا اور یہ اس کی زندگی کی آخری بڑی تقریب بھی ثابت ہوئی۔ کیونکہ اور اس کے کچھ ہی عرصے بعد وہ 8مئی 1898ء کو دنیا سے رخصت ہوگیا۔جرمنی کے شہر کولون میں اس کی قبر آج بھی یہودیوں کے لیئے مرجع خلائق ہے۔ ہیرمن شپرا نے کانفرنس میں ایک تجویز پیش کی کہ اسرائیل کی مملکت کے قیام اور یروشلم میں یہودیوں کی واپسی کے لیئے ہم سب کے جذبات اپنی جگہ مقدم، مگر عملی اقدام کے طور پر خلافتِ عثمانیہ کے زیرِ انتظام مقدس علاقوں میں زمین خریدنے اور اسے اپنے لیئے ترقی دینے کیلئے ایک عالمی فنڈ کا آغاز کیا جائے۔ اس نے اس فنڈ کا نام ’’کیرن کیمت لی سرائیل‘‘(Karen Kaymet Leyisreal) رکھا ۔ اس عبرانی نام کا اصل مطلب ’’سرزمین اسرائیل کی پکار‘‘ بنتا ہے۔ اسکی اس تجویز کو بہت سراہا گیا۔ لیکن چونکہ ،صیہونیوں کی پہلی چار کانفرنسیں لائحہ عمل طے کرتے اور مشہور زمانہ پروٹوکولز (Protocols)تحریر کرتے گذر گئیںاس لیئے فنڈ قائم نہ ہوسکا۔ پانچویں عالمی صیہونی کانفرنس 1901ء میں پھر بیسل شہر میں ہی منعقد ہوئی جس میں اس آنجہانی پروفیسر شیپرا کی تجویز کے مطابق یہ فنڈ قائم کر دیاگیا جو آج دنیا بھر میں ’’قومی یہودی فنڈ‘‘ (Jewish National Fund) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس فنڈ کا سربراہ ایک مشہور یہودی صنعت کار جواَن کیمین زکی (Johann Kemenezky)کو بنایا گیا۔ یہ بھی ایک روسی نژدا یہودی تھا، جس نے صیہونیت کے بانی ہرزل (Herzal)کے شہر ویانا میں سکونت اختیار کرکے وہاں بجلی کے ساز و زسامان کی ایک بہت بڑی فیکٹری’’ Mayer Eco‘‘ قائم کی تھی۔ یہ شخص اسرائیلی یہودیوں میں اسقدر مقبول ہے کہ آپ کو تل ابیب اور یروشلم میں اس کے نام کی کئی سڑکیں ملیں گی۔ اس ’’فنڈ‘‘ کا بنیادی مقصد اسرائیل کی مقدس سرزمین میں یورپ سے لوٹنے والے یہودیوںکیلئے زمین خریدنا تھاتاکہ ایک دن انہیں وہاں لے جاکر آباد کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ اس یہودی فنڈ کے قیام کے وقت تک ’’بالفور ڈیکلریشن‘‘نہیں ہوا تھا اور یہ سب خفیہ طور پر کیا جارہا تھا۔ اس فنڈ کے تحت 1909ء تک اتنی زمینیں خرید لی گئی تھیں کہ ننھا سا تل ابیب شہر آباد ہو سکے۔ گیارہ اپریل 1909ء کوچھیاسٹھ یہودی تل ابیب کے علاقے میں ایک ریت کے ٹیلے پر جمع ہوئے۔ سمندرسے 120گھونگوں (Sea Shells)کو اکٹھا کیا گیا جن میں سے 60سفید تھے اور 60سرمئی ۔ ان کے ذریعے قرعہ اندازی کی گئی۔ سفید گھونگوں پر یورپ سے ہجرت کرکے آنے والے یہودیوں کے نام لکھے گئے اور سرمئی گھونگوں پر پلاٹوں کے نمبر اور یوں پلاٹ الاٹ کر دیئے گئے۔ یہ لوگ اس بے آب و گیاہ ریگستان کے پہلے شہری تھے۔ 28جولائی 1909ء کو عبرانی زبان کے پہلے سکول کا سنگِ بنیاد رکھا گیا تاکہ بھولی بسری عبرانی زبان، ان تمام یہودیوں کو سکھائی جا ئے جو اسرائیل کے شہری بنیںگے۔ جس جگہ قرعہ اندازی ہوئی تھی ،وہاں پر پانی کا کنواں کھودا گیا۔ یہ جگہ آجکل تل ابیب کا مرکزی علاقہ روتھ شیلڈ بلیوارڈ ہے۔ صرف ایک سال کے اندر چھیاسٹھ گھرمکمل ہوئے ، پانی کی ترسیل کانظام اور عبرانی سکول وغیرہ تعمیر کئے گئے ۔ اس شہر کی پانچ سڑکوںکے نام پانچ بڑے صیہونی رہنماؤں کے ناموں پر رکھے گئے۔ یہ پانچ صیہونی ، (1) صیہونیت کا بانی ہرزل (Herzal)، (2) یہودی دانشور احد حام (Ahad Ham)، (3)ہسپانوی یہودی شاعر وفلسفی جودہ ہالوی (Judah Halevi) جو مسلم سپین کے مشہور شہر ٹولیڈو (Toledo) میں دسویں صدی کا رہنے والا تھا۔ یروشلم پر اس وقت صلیبی جنگوں کی وجہ سے عیسائیوں کی حکومت قائم تھی۔ یہ شخص یروشلم میں آباد ہونے کے جنون میں وہاں جا پہنچا، مگر اگلے دن ہی پراسرارطور پر مردہ پایا گیا،(4) موشے لیب لیلن بلم (Moshe Leib Lilienblam) یہ بھی ایک مشہور یہودی عالم تھا، جس نے ایک فرضی نام زیلے فشاد (Zelaphehad)کے نام سے یہودیوں کی نشا ۃ ثانیہ کے لیئے بے شمار لکھا اور پانچویں سڑک روتھ شیلڈ خاندان کے نام پرہے۔ 21مئی 1910ء کو اس شہر کے لیئے ’’تل ابیب‘‘ نام اختیار کیا گیا۔ شہر کا جھنڈا دو نیلی پٹیوں کے درمیان شہر کی محافظ سپاہ کے لوگو (Logo)پر مشتمل تھا۔ ان دو نیلی پٹیوں کی وجہ تسمیہ دراصل وہ دو دریا ہیں، ایک فرات اور دوسرا نیل، جن کے درمیانی علاقے میں یہودی ریاست کے قیام کا خواب ہر یہودی دوہزار سال سے دیکھتا چلا آرہا ہے۔ پانچ سال بعد تل ابیب شہر ایک مربع کلومیٹر یعنی 247ایکڑوں پر مشتمل تھا اور 1915ء کی مردم شماری کے وقت اس کی آبادی 2679تھی۔ 1917ء میں جنگِ عظیم اول کے دوران خلافت عثمانیہ نے ان یہودی آبادکاروں کو سیکورٹی خدشات کی وجہ سے بے دخل کر دیا، لیکن ٹھیک ایک سال بعد جنگ عظیم اوّل کے خاتمے اور برطانوی افواج کی فتح کے ساتھ ہی انہیں وہاں لاکر واپس آباد کردیا گیا، کیونکہ اب فلسطین کا یہ علاقہ برطانیہ کے حصے میں آچکاتھا اور برطانیہ پہلے ہی بالفور ڈیکلریشن کی رو سے اسے یہودی قوم کا آبائی وطن تسلیم کر چکا تھا۔ فلسطین کے برطانوی تسلط میں آنے کے بعد یہودی قومی فنڈ میں سرمایہ انتہائی تیزی اکٹھا ہونا شروع ہوا اور پورے خطے میں زمینیں خریدی جانے لگیں۔ ہر یہودی گھر، دکان، عبادت گاہ، شادی کی تقریب اور جنازے میں ایک نیلے رنگ کا ڈبہ ضرور موجود ہوتا جسے یدش (Yidish) کہاجاتا۔ 1902ء سے 1940تک 38سال ’’یہودی قومی فنڈ‘‘ کے نام پر ٹکٹیں چھپوا کر سرمایہ اکٹھا کیاجاتا رہا۔ 1921ء تک اس ’’یہودی قومی فنڈ‘‘ کی ملکیت پچیس ہزار ایکڑ یعنی 100مربع کلومیٹر تھی جو سات سالوں بعد 1927ء میں پچاس ہزار ایکڑاور اگلے آٹھ سالوں بعد 1935میں 89,500ایکڑ تک بڑھ گئی۔اس پورے علاقے میں اب 108یہودی قصبے آباد ہو چکے تھے۔ جب 14مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا تو اس وقت پورے اسرائیل میں یہودی آبادکاروں کی زمینوں میں سے 54فیصد زمینوں کی ملکیت ’’یہودی قومی فنڈ‘‘ کے پاس تھی۔ آج 2021ء میں، اسرائیل کی کل زمین کا تیرہ فیصد اسی فنڈ کی ملکیت ہے۔ اپنے قیام سے لے کر اب تک اس فنڈ نے اسرائیل میں 24کروڑ درخت لگائے ہیں، جن میں سے اکثریت زیتون کے درختوں کی ہے۔ اس فنڈ نے وہاں 180 آبپاشی کے ڈیم بنائے ہیں،دو لاکھ پچاس ہزار ایکڑ ریگستان کو قابلِ کاشت علاقوں میں تبدیل کیا ہے اور پورے اسرائیل میں ایک ہزار پارک بنائے ہیں۔ اس فنڈ کا بنجر (Arid)زمینوں کو قابل کاشت بنانے پر ایسا بہت بڑا تحقیقاتی ادارہ ہے جو دنیا بھر میں موجود ریگستانوں کو سرسبز بنانے میں رہنمائی کرتا ہے۔ یہودی آباد کاروں کو اسرائیل میں آباد کرنے کے ساتھ ساتھ یہ فنڈ اسرائیل میں زراعت بہتر بنانے، جنگلات اگانے، پانی کا تحفظ اور دیگر کئی معاملات میں بھی سرمایہ فراہم کرتا ہے۔(جاری)