نیاکالم ، نئے عنوان کے ساتھ لکھے جانے کا ’’مرحلۂ شوق ‘‘۔۔۔ ہر تین دن کے بعد ، ایک نئے چیلنج کی صورت میں سامنے موجود ہوتا ہے ، بالخصوص میرے جیسا مبتدی ۔۔۔ جو بعض ضابطوں اور قاعدوں میں بھی باندھا ہوا ہو، کیلئے یہ مشکل ذرا دو چند سی ہو جاتی ہے ۔ ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ مرے آگے ہے‘ کلیسا مرے پیچھے منصبی ذمّہ داری کے سبب تین روز قبل اسلام آبادمیں وفاقی وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں حاضر تھا، جہاں اکابر علماء ، معتبر مفتیان‘مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ممبران، چاروں صوبوں بشمول آزاد جموںو کشمیراور گلگت بلتستان کے سرکاری عمائدین سمیت مختلف وفاقی وزارتوں کے ذمہ داران، بشمول وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے نمائندگان تشریف فرماہوئے …کوئٹہ کے علماء نے بتایا کہ دو روز سے اسلام آباد ہی میں ہیں‘ ظاہر ہے وفاقی دارالحکومت میں ان دنوں خوب بہار اتری ہوئی ہے اور رویت ہلال کمیٹی کے ممبران کے لئے بھی صرف یہی ایک ’’بچت‘‘ ہے ۔نہ کوئی تنخواہ، نہ کوئی الائونس اور نہ ہی کوئی اعزازیہ وغیرہ‘ اور قوم کے سامنے مستقل جوابدہی جس کے لئے ہمارے ’’لبرلز‘‘ کوئی نہ کوئی راستہ نکالے رکھتے ہیں‘ بالخصوص آئندہ ایک ڈیڑھ ماہ تو اب رواداری انسان دوستی اور پرامن بقائے باہمی کے سارے سوتے اسی ایک چاند کی’’رئویت‘‘ اور عدم رئویت اور ایک ساتھ روزے اور عید سے ہی ثابت کرنے کے درپے رہیں گے۔ حالانکہ قوموں اور ملکو ں کی صف میں باعزت اور باوقار مقام پانے کے معیارات اور تقاضے تو کچھ اور ہوتے ہیں۔بہرحال…اجلاس میں گزشتہ کمیٹی کی طویل اور وقیع خدمات کو خراج تحسین ۔۔۔بلا شبہ رویت ہلال کمیٹی کی پچاس سالہ تاریخ میں حضرت مفتی منیب الرحمن کی شخصیت ہمیشہ نمایاں تر‘ تشکیل نوکی حامل موجودہ کمیٹی سے تعارف ونیک توقعات اوراچھی امیدوں کا اظہار،ایک فطری امر تھا۔خیال ہوا کہ مسجد قاسم خاں کے مہتمم و منتظم مفتی شہاب الدین پوپلزئی بھی اجلاس کو رونق بخشیں گے ، کیونکہ اجلاس کا ایجنڈا ان کی تائید کے بغیر نتیجہ خیز ہوہی نہیں سکتا، جس کے اہم نکات اور وزارت کا قرطاسِ عمل یعنی "Working Paper"ہی یہی تھا کہ:’’ رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لئے سرکاری اور نجی رویت ہلال کمیٹیوں کے مابین اختلاف دورکرنے اور ملک بھر میں ایک ہی دن روزہ (رمضان مبارک) اور عید کے لیے مشاورتی اجلاس وزارت کے کمیٹی روم میں زیر صدارت وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری صاحب انعقاد پذیر‘‘۔ اور ایجنڈا درج ذیل ہے: (الف)مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے نئے منتخب ممبران کا تعارف/(ب)رئویت ہلال کی شہادت کا طریقہ کار /(ج) کیا سپارکو اور محکمہ موسمیات کی پیشین گوئی کے برعکس چاند نظر آنے کی گواہی قابل ہو گی یا نہیں؟ /(د)مرکزی رئویت ہلال کمیٹی کا اجلاس کس وقت تک جاری رہنا چاہیے ۔ وزارت کی بھرپور کوشش کے باوجود ، مولانا پوپلزئی کی آمد نہ ہوئی اور نہ ہونی تھی ، جس کا اظہارگذشتہ ایک تحریر میں بھی کیا جا چکا ہے، بہر حال موجودہ کمیٹی ، چونکہ بھرپور جذبوں سے آراستہ اور کچھ کرنے اور کر گزرنے کا داعیہ بھی رکھتی ہے ، لہٰذا انہوں نے رمضان المبارک 1442ھ کا چاند دیکھنے کے لیے ، 29شعبان المعظم بمطابق 13اپریل 2021مرکزی کمیٹی کا اجلاس دفتر ایڈمنسٹریٹر اوقاف عیدگاہ چارسدہ روڈ،پشاور ہی میں رکھ لیا ہے ۔ جنوری تو ہے میری جاں، تو دسمبر میں ہوں اب دیکھتے ہیں کہ مولانا پوپلزئی صاحب کہاں تک ، اِن مرکزی کمیٹی والوںسے اِعراض کرتے ہیں، اگر مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی ، اتحاد و اتفاق اور محبت و رواداری کی فضا کو موثر ، مضبوط اور مستحکم بنانے کا جذبہ اور ولولہ رکھتی ہے، تو پھر اس کے ساتھ دین دوست طبقوں اور ملک دوست حلقوں کو تعاون کرنا چاہیے ۔ کسی کو بھی بے جا ہٹ دھرمی اور ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ ’’مسیت‘‘بنانے کے اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ میں بھی ذاتی طور پر اس خیال کا مؤید اور حمایتی ہوں کہ عید، شب برأت کے انعقاد و اہتمام پر صاحبانِ اقتدار و اختیار کو وسیع الظرف اورحوصلہ مند رہنا چاہیے ، ایسے اقدامات کا، ایک خاص حد تک مفاہمت اور مصالحت سے انجام پذیر ہونا ہی بہتر ہے ، لیکن اگر یہ سب کچھ ایک خاص حد سے متجاوز ہو جائے، اور بات ذاتی اَنا کی بنا لی جائے ، تو پھر قومی یکجہتی اور ملکی سلامتی کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونا لازم ہو جاتا ہے،مقامی اور سرکاری رئویت ہلال کمیٹیاں تقریباً دینی شخصیات پر ہی مشتمل ہیں، ان کے اختلاف کے سبب قوم ذہنی انتشار میں مبتلا ہوتی ہے، اور پھر مذہب بیزار طبقات اور دین دشمن قوتیں اس اختلاف کو مزید اچھالتی اور یوںبلاوجہ ملک میں الزام اور بہتان کی ایک عجیب فضا قائم ہو جاتی ہے‘ جس میں اب وزارت سائنس و ٹیکنالوجی بھی ایک ’’سٹیک ہولڈر‘‘ کے طور پر سامنے آگئی ہے۔ اجلاس میں پشاور سے مفتی عتیق صاحب اہالیانِ پشاور کا نقطۂ نظر بیان کرنے کے لیے موجود تھے ، مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ وہ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف کے فارغ التحصیل ہیں، انہوں نے کہا کہ جب ہم بھیرہ شریف میں پڑھتے تھے، تو ہم صوبہ سرحد کے طلبہ، رمضان اور عیدین کا چاند دیکھنے ،اپنے دارالعلوم سے باہر میدان میں نکلتے تھے، جو کہ دراصل ہمارے خطّے کی معاشرت اور روایت کا اثر ہے، ہمارے ہاں مقامی سطح پر چانددیکھنے کا رواج اب بھی پوری طرح موجود ہے ، جو کہ دیگر صوبوں اور خطّوں میں مفقود ہے ۔مزید یہ کہ ہمارے ہاں پشاور ، چارسدہ، بنوں اور دیگر قبائلی علاقوں میں مقامی علماء کی قیادت میں پرائیویٹ رئویت ہلال کمیٹیاں اب بھی فعال ہیں، جیسا کہ شاید دیگر صوبوں میں نہ ہوں، اس وجہ سے پشاور اور خیبر پختونخواہ میں پرائیویٹ کمیٹیوں کے پاس شہادتوں کی وصولی اور ان کی قبولیت کا نظام وہاں کی سماجی اور دینی روایت سے وابستہ ہے ، اور وہاں ’’چاند‘‘نظر آنے کے امکانات ہمیشہ ’’زیادہ روشن تر‘‘ رہتے ہیں ، جبکہ دوسری طرف مرکزی رئویت ہلال کمیٹی کے ہاں شہادتوں کی قبولیت قدر ے مشکل ہوتی ہے، جس کے سبب بہت سی گواہیاں مناسب رابطہ نہ ہونے کے سبب، ضائع ہو جاتی ہے، دوسرا ان کا خیال تھا کہ پشاور اور اس خطّے کے علماء اور خطباء کی حیثیت بڑی مضبوط اور مستحکم ہے، جس کے سبب ان کو چاند دیکھنے اور اعلان کرنے میں کسی ریاستی اور سرکاری دباؤ کی پرواہ نہیں ہوتی ، بہرحال یہ امر تو اپنی جگہ بجا محسوس ہوتاہے کیونکہ از خود مولانا قاسم خاں صوبائی اوقاف سے منسلک ہونے کے باوجود سرکاری نظم اور قواعد کی بجائے ، اپنے ذاتی اور خاندانی نظام ہی کو موثر رکھنے کے درپے رہتے ہیں‘جہاں تک شہادتوں کو قبول کرنے کا معاملہ ہے‘ تو اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر اور ممتاز اہلحدیث عالم دین رانا محمد شفیق خان پسروری نے ’’چاند پر اختلاف کیوں؟‘‘کے موضوع پر اپنی کتاب میں لکھا کہ جمعیت اہلحدیث کے امیر پروفیسر ساجد میر نے بتایا کہ سیالکوٹ میں ہمارے ایک مولانا نے مسجد میں توبہ کے موضوع پر درس دیا‘ وہاں ایک پٹھان بزرگ رونے لگا اور کہنے لگا‘ میں نے بہت بڑا گناہ کیا ہے‘میں 22,23سال تک سکّے پر موجود چاند دیکھ کر رمضان اور عید کے چاند دیکھنے کی جھوٹی گواہی دیتا رہا ہوں۔ بہرحال …‘خیال یہی ہے کہ پیش آمدہ رمضان المبارک کے لیے، اس دفعہ پسنی ، جیوانی اور گوادر نہیں جانا پڑے گا ، بلکہ ملک کے طول و عرض میں چاند کے نظر آنے کے امکانات روشن ، اور 14؍اپریل (بدھ) کے روزے کا قومی امکان ہے۔