وفاقی حکومت سمیت غیرملکی ماہرین بھی پریشان تھے کہ اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجودایک سٹریٹجک نوعیت کا منصوبہ مکمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ منصوبے کی لاگت میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب دشمن اس تاخیر کا فائدہ اُٹھانے کے درپے ہوچکا ہے۔اس منصوبے کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پہاڑ وںمیں 68کلومیٹرطویل ٹنل کی کھدائی تھی۔ یہ منصوبہ2007ء میں شروع ہوا،جس کی ابتدائی لاگت 80ارب روپے تھی۔تاخیر‘ڈیزائن کی تبدیلی اور جدید مشینری کی خریداری کے باعث لاگت 400ارب روپے سے تجاوز کرچکی تھی ۔وفاقی حکومت نے 2016ء میں لیفٹینٹ جنرل (ر)مزمل حسین کو چئیرمین واپڈ ا تعینات کرتے ہوئے نیلم جہلم پن بجلی منصوبے سمیت سالوں تاخیر کے شکاردیگر منصوبے مکمل کرنے کاایک مشکل ٹاسک سونپ دیا۔ملک میں جاری بجلی کی قلت کے باعث نیلم جہلم پن بجلی منصوبہ کی تکمیل ناگزیر ہوچکی تھی۔ لیفٹینٹ جنرل (ر)مزمل حسین نے منصوبے کا دورہ کیا ۔ بریفنگ لی اور ٹنل بورنگ مشین پر مامور آپریٹرسے براہ راست معلومات حاصل کرتے منصوبے کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کا تعین کرلیا۔ ٹنل بورنگ مشین پرصرف ایک آپریٹرمامور تھا۔ یہ آپریٹر ایک دن میں دس گھنٹے ٹنل بورنگ مشین چلا کر ٹنل کی کھدائی کرتا تھا۔ ابتدائی دو گھنٹوں کے بعدٹنل میں آکسیجن کی کمی کے باعث آپریٹرکی قوت مدافعت کم ہونا شروع ہوجاتی تھی۔ یہ آپریٹر کھانے کی بریک اور اپنے آپکو تازہ دم کرنے کیلئے کچھ وقت آرام بھی کرتا تھا۔ دس گھنٹون کے بعد ٹی بی ایم بند کرنے اپنے کمرے میں واپس آجاتا تھا۔ جنر ل مزمل حسین اس صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ورکنگ کی توپتہ چلا کہ ٹنل کی کھدائی کا کام اگلے تین سال تک مکمل نہیں ہوگا۔ یہ انکشاف دل دہلا دینے والا تھا۔ اس کا واضح مطلب تھا کہ 2020ء سے پہلے 969میگاوا ٹ بجلی سسٹم میں شامل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس ٹنل کے ذریعے پانی پاور ٹربائن تک پہنچنا تھا جس کے بعد بجلی قومی گرڈ میں شامل ہونا تھی۔چئیرمین واپڈ نے فیصلہ کیا کہ فوری طور پر متعلقہ ملک سے ٹنل بورنگ مشین کے مزید تین آپریٹرز بلوائیں جائیں۔ٹنل بورنگ مشین پر چھ گھنٹوں کی شفٹ میں کام ہوگا۔ یوں ٹنل کی کھدائی چوبیس گھنٹے جاری رہنے سے 2018ء میں بجلی کی پیداوار دیرنیہ خواب پورا ہوجائے گا۔ آڈٹ ٹیم نے اعتراضات اُٹھا کہ ٹنل بورنگ مشین معاہدے میں صرف ایک آپریٹرکو ادائیگی کی اجازت ہے ۔مزید تین آپریٹرز کی خدما ت حاصل کرنے سے واپڈاکو 70کروڑ روپے اضافی ادا کرنا پڑیں گے۔ آڈٹ پیرا بنے گا اور چئیرمین واپڈ سمیت افسران کو نیب کی کاروائی بھگتنی پڑے گی۔ لیفٹینٹ جنر ل(ر) مزمل حسین کے سامنے ایک جانب قومی مفاد تھا اور دوسری جانب آڈٹ پیرا اور نیب کی تلوار۔ چئیرمین واپڈا نے تین اضافی آپریٹرز کی خدمات حاصل کیں‘دن رات ٹنل کی کھدائی شروع ہوئی اور اپریل 2018ء میں نیلم جہلم کا پہلے یونٹ نے سستی بجلی کی سپلائی شروع کردی۔ پہلے سال نیلم جہلم پن بجلی منصوبے سے ملکی معیشت اور قومی خزانے کو 45 ارب روپے سے زائد فائدہ پہنچا ۔ واپڈ ا کی پوری ٹیم حیران تھی اور کچھ افسران پشیمان بھی کہ70 کروڑ روپے کے اضافی خرچ سے قومی خزانے کو کتنا بڑ افائدہ ملا ۔ یہ اگرچہ کوئی راکٹ سائنس نہیں تھی مگر لیفٹینٹ جنر ل (ر)مزمل حسین نے خلوص نیت اور بلند حوصلے کیساتھ قومی کارنامہ سرانجام دیتے ہوئے ملک بھر کی سرکاری مشینری کا ایک ہی سبق دیا کہ 74سالوں سے قومی منصوبوں میں تاخیر‘معاشی سست روی اور عوامی مسائل کی وجہ صرف اسی سوچ اور جذبے کی کمی ہے ورنہ پہاڑوں کا سینہ چیر کر قومی ہدف حاصل کرنا قطعاً ناممکن نہیں۔ملک میںجاری سیاسی رسہ کشی ‘الزام تراشی اور احتسابی عمل قومی توانائی کے ضیاع کا بڑا موجب بن چکا ہے۔ڈالرکی قدر میں اضافہ اور مہنگی پیٹرولیم مصنوعات نے عوام کا جینا دو بھر کردیا ہے۔ جو وقت اور توانائی اس وقت ملک کو درپیش معاشی بحران سے نکالنے پر خرچ ہونی چاہئے وہ الزام تراشیوں اور وضاحتوں پر ضائع ہورہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مسلسل دعوی کیا جارہا ہے کہ روس سے 30فیصد رعایتی نرخ پر پیٹرولیم مصنوعات اور سستے دام پر گندم خریدنے کے معاملات طے کرلئے تھے مگر نئی مخلوط وفاقی حکومت غیرملکی دباؤ کے باعث سستی پیٹرولیم مصنوعات اور گندم نہیں خرید رہی۔ حالیہ ایک اعلی سطحی اجلاس کے دورن وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ گزشتہ حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ روس نے پاکستان کو 30فیصد سستا تیل دینے پر آمادگی ظاہر کی تاہم روسی حکام کی جانب سے پاکستانی حکومت کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ روس پر امریکی اور یورپین یونین کی پابندیوں کا اطلاق غذائی اشیاء پرنہیں ہے اور روسی حکام سے گندم کی درآمد کے حوالے سے بات چیت بین الحکومتی سطح پر کی جا رہی ہے۔اس موقع پر وزیر اعظم شہاز شریف نے ہدایت کی کہ روس سے گندم کی در آمد بین الحکومتی بنیادپر ہونی چاہیے۔گندم کا معیار پاکستان میں استعمال ہونے والی گندم کے معیار کے مطابق ہونا چاہیے۔ وزیراعظم کو یہ ہدایت اس وجہ سے بھی دینا پڑیں کہ گلگت بلستان حکومت نے درآمدی گندم استعمال کرنے سے انکار کردیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی دور حکومت میں درآمد کی گئی گندم کی کوالٹی انتہائی غیر معیاری ثابت ہوئی ۔ سپریم کورٹ گلت بلتستان نے اس معاملہ پر ازخود نوٹس لے کر کارروائی بھی شروع کررکھی ہے۔ گلگت میں عوام نے درآمدی گندم کے خلاف بڑے مظاہرے بھی کئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے روس کیساتھ گندم خریداری کی بات چیت شروع کردی ہے ۔ اگرچہ پاکستان کی جانب سے روس سے پیٹرولیم مصنوعات خریدنے کی راہ میں کئی قانونی ‘مالی اور دوست ممالک کی ناراضی جیسی کئی رکاوٹیں حائل ہیں مگر اس وقت پاکستانی معیشت اور عوام مہنگی توانائی کامزید بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔قطر سے سستی اضافی ایل این جی لانے میں بھی بہت تاخیر ہوچکی لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دوست ممالک سمیت ایران سے سستی پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدکیلئے بات چیت کی جائے۔ایران اور دوست ممالک سے موخر ادائیگیوں سمیت رعایتی نرخ پرپٹرولیم مصنوعات کا حصول پاکستان کو بڑے معاشی بحران کی دلدل میں دھنسنے سے بچاسکتاہے۔