یہ ٹیس ہر سال خانہ دل میں اٹھتی ہے جب 1947 ء کی ہجرت کے مناظر دیکھتا ہوں۔ لٹے پٹے قافلے ۔راستے میں کتنے جاں سے گزر گئے کوئی حساب ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قتل عام کا ذمہ دار کون تھا؟ ہندو شائونزم کے علمبردار سردار پٹیل کے سوانح نگار کے ایل پنجابی نے اس کا ذمہ دار پاکستانی مسلمانوں کا قرار دے دیا تھا اور اس وقت ’’ مطالعہ پاکستان‘‘ کے ناقدین کے ہاں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ابتداء مسلمان اکثریتی علاقوں سے ہوئی اور پھر دوسری طرف سے جواب دیا گیا۔ حقائق مگر اس کے بر عکس ہیں اور حقائق کا ہر پاکستانی کو علم ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان فسادات کے پیچھے آر ایس ایس تھی جس کا پریوار آج بھی بھارت میں حکومت کر رہا ہے۔ان کی سرپرستی سرار پٹیل کر رہے تھے جو ہندو سرمایہ دار طبقے کے نمائندہ اور ہندو شائونزم کے علمبردار تھے ۔یاد رہے کہ سردار پٹیل کے سب سے بڑے سرپرست گاندھی صاحب خود تھے۔گاندھی جی کی آشیر باد سے ہی وہ کانگریس کی مجلس عاملہ کا رکن بنا اور گاندھی جی ہی کی سرپرستی میں اس نے کانگریس کی صدارت حاصل کی۔ ابوالکلام آزاد صاحب کی پاکستان کی بابت تو پیش گوئیوں کے یاروں نے دفتر جمع کر دیے کاش انہوں نے اس پر بھی دو سطریں لکھی ہوتیں کہ سردار پٹیل نے خود ابوالکلام کے ساتھ کیا’حسن سلوک ‘‘روا رکھا تھا۔ کانگریس کا یونینسٹوں کے ذریعے سکھوں کو فسادات پر اکسانا ایک ایسی حقیقت ہے جس کی تردید ممکن نہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کی ساری تفصیل خود بائیں بازو کے دانشور زاہد چودھری نے اپنی سیریز ’’ پاکستان کی سیاسی تاریخ‘‘ کے تیسرے والیم میں اہتمام کے ساتھ بیان کر دی ہے۔ مارچ 1947میں خضر حیات نے استعفی دیا اور ساتھ ہی نفرت انگیز مہم شروع کر دی۔ وہ سکھوں کو اکساتے کہ ’’ بندوقوں کو سنبھال کر رکھو، خندقیں کھود لو۔ نفرت کی اس مہم کے سردار پٹیل اور سردار صاحب کے پیچھے گاندھی صاحب موجود تھے۔ سکھوں سے مشاورت کی گئی اور انہیں مسلمانوں کے قتل عام پر تیار کیا گیا۔ برطانوی حکومت اس سارے معاملے سے باخبر تھی چنانچہ گورنر پنجاب ایوان جینکنز نے وائسرائے دیول اور زیر برائے ہندوستان پتھک لارنس کو خط لکھا کہ فسادات کا خطرہ ہے اور سکھ مرکزی پنجاب پر قبضہ کر کے اپنی حکومت بنانے کی کوشش کریں گے‘‘۔ جیسے پشتونستان کے پیچھے گاندھی جی تھے جب سرحد کو ہندوستان میں شامل نہ کرا سکے تو پشتونستان کا معاملہ کھڑا کروا دیا ایسے ہی سکھوں کی اس تحریک کے پیچھے سردار پٹیل اور سردار جی کے پیچھے گاندھی جی تھے۔اکالی دل کو یقین دلایا گیا تھا کہ آر ایس ایس بھی ان کے ساتھ کھڑی ہو گی۔یاد رہے کہ کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے بھی ریاست پٹیالہ کے سکھ دستے تھے۔ کانگریس کا یونینسٹ پارٹی اور اکالی دل سے رابطہ تھا اور ان ہی روابط کی بنیاد پر چیف سیکرٹری پنجاب نے گورنر کو رپورٹ پیش کی اور لکھا کہ سکھوں کی جتھہ بندی کی جا رہی ہے انہیںمسلح کیا جا رہا ہے اور اس میں ساری سکھ ریاستیں بھی شامل ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب ابھی کہیں فساد نہیں پھوٹا تھا۔گویا تیاریاں پہلے ہی سے مکمل تھیں۔ چنانچہ اسی منصوبہ بندی کے تحت کانگریس کی مجلس عاملہ نے پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی ۔یہ نعرہ بھی سب سے پہلے کانگریس کے اجلاس میں لگا کہ قیام پاکستان تو سکھ پنتی کی موت ہے۔ باقی کا کام ماسٹر تارا سنگھ جیسوں نے کر دیا۔ کیمبل جانسن نے فسادات سے قبل ہی تارا سنگھ کو وحشی قرار دے دیا تھا ،اس کی کچھ وجوہات تو ہوں گی۔ وائسرائے کے معاون جارج ایبل اس سارے خطرناک کھیل سے آگاہ ہو چکے تھے کہ سکھوں نے مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ بنا لیا ہے چنانچہ انہوں نے مائونٹ بیٹن کو آگاہ کیا اور مائونٹ بیٹن نے مہاراجہ پٹیالہ کو بلا کر کہا کہ قتل عام سے باز رہے ورنہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اسی مہاراجہ پٹیالہ کے دستوں نے کشمیر میں قتل عام کیا اور مائونٹ بیٹن تماشا دیکھتے رہے۔ کون جانے لارڈ صاحب نے اس ملاقات میں تنبیہہ فرمائی تھی یا تھپکی اور شہہ دی تھی۔ ایسٹرن کمانڈ کے کمانڈر ان چیف فرانسس ٹکر بھی سکھوں کی جانب سے قتل عام کے خدشے کا اظہار کر رہے تھے اور حکومت برطانیہ کو اس سے نبٹنے کی تجاویز دے رہے تھے۔ پنڈرل مون کی یہ بھی رائے تھی کہ سکھ قتل عام کی تیاری کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب ابھی فسادات شروع نہیں ہوئے تھے۔ گویا منصوبہ پہلے سے طے شدہ تھا۔اب ’’ مطالعہ پاکستان ‘‘ کے ناقدین اس کا جو بھی جواز پیش کرتے رہیںحقیقت اس سے تبدیل نہیں ہو سکتی۔چنانچہ اکتیس جولائی کو پورے پنجاب میں بیک وقت ایک ساتھ انتہائی منظم انداز سے مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ یہ رد عمل نہیں تھا۔ یہ ایک طے شدہ حکمت عملی تھی۔ قائد اعظم کو بھی سردار پٹیل کے اس منصوبے کی خبر ہو چکی تھی۔ چنانچہ سولہ اگست کو قائد اعظم نے جارج ایبل سے ملاقات میں انہیں بتایا کہ سردار پٹیل سکھوں کے ذریعے وسطی پنجاب میں فساد پھیلانا چاہتا ہے۔خود مائونٹ بیٹن نے ایک سرکاری دستاویز قائد اعظم کہ سکھ مسلمانوں کا قتل عام کرنے جا رہے ہیں۔اس ملاقات میں نہرو اور سردار پٹیل بھی موجود تھے۔ قائد اعظم نے مطالبہ کیا جو سکھ فسادات کی تیاری کر رہے ہیں ان کو گرفتار کیا جائے۔ لیکن سردار پٹیل نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ یہ خوفناک منصوبہ بھی اب راز نہیں رہا کہ عین چودہ اگست کو کراچی میں قائد اعظم کی کار پر بم مارنے کا منصوبہ بنایا گیا جو بروقت کارروائی پر ناکام بنایا گیا۔مسلمانوں کے مہاجر کیمپ میں گندھک کا زیر ملایا گیا اور اس میں بھی انگلی سردار پٹیل پر اٹھی۔ سکھوں کے ذریعے فسادات ، مہاراجہ پٹیالہ کے ذریعے کشمیر میں قتل عام ، پاکستان کے حصے کے وسائل پاکستان کو دینے سے انکار، گاندھی صاحب کی سرپرستی میںصوبہ سرحد میں پشتونستان کا شوشہ اور پنجاب میں سکھ ریاست کے نام سے قتل عام ، پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاستوں پر قبضہ ۔۔۔۔یہ سب ایک فارمولے کے تحت ہو رہا تھا اور زعم یہ تھا کہ اس ہمہ جہت یلغار سے پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ یہی خمار تھا کہ سردار پٹیل نے دعوی کیا :’’ مسلمان اپنے کیے پر پچھتائیں گے اور گھٹنوں کے بل چل کر منتیں کرتے ہوئے واپس ہندوستان میں آئیں گے‘‘۔ لیکن الحمد للہ ،پاکستان آج بھی قائم ہے ۔ اور مطالعہ پاکستان بھی۔ اپنی ہی آگ میں جو جل رہے ہیں شاید ان ہی کے لیے جگر مراد آبادی نے کہا ہو: ہجر نے تو ترا اے شیخ بھرم کھول دیا تو تو مسجد میں ہے ، نیت تری مے خانے میں