قیس سعید مجھے ہی نہیں ساری دنیا کو حیران کر گیا ہے۔ قانون کا ریٹائرڈ پروفیسر‘ نہ شعلہ بیانی نہ گرم گفتاری اور نہ ہی ’’شیریں مقالی‘‘سادگی ‘سنجیدگی اور سمجھداری ہی قیس سعید کا سہ لفظی تعارف ہے۔ اسی سال اکتوبر میں جب ہم اپنے داخلی معاملات و مسائل میں الجھے ہوئے تھے تب تیونس کے صدارتی انتخابات میں 61سالہ پروفیسر نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا۔ اس کے مقابلے میں قلب تونس پارٹی کا ارب پتی امیدوار نبیل القروی تھا۔ حیران کن آدمی نے چند ہزار روپے خرچ کر کے حیران کن کامیابی حاصل کی اور جدید اسلامی عربی اور افریقی ملک تیونس کا 77فیصد ووٹ لے کر صدر منتخب ہوا۔ یہ سب کیسے ہوا؟ اس پر تفصیلاً عرض کروں گا۔مگر پہلے کچھ تیونس کے بارے میں بات ہو جائے۔ چھوٹی بحر کے مصرعے کی طرح چھوٹے شہروں اور چھوٹے ملکوں کی ایک خاص دلآویزی ہوتی ہے۔ ایسا ہی ایک دلآویز اور خوبصورت ملک بحر روم کے کنارے آباد ہے جس کو ہم تیونس اور اس ملک کے مکیں اسے تونس الخضراء یعنی سرسبز تیونس کہتے ہیں۔1957ء میں تیونس فرانس کے استعماری چنگل سے آزاد ہوا تھا۔ تب سے لے کر 2011ء کی کامیاب عوامی تحریک تک اس ملک پر جبیب ابو رقیبہ اور پھر صدر زین العابدین حکمرانی کرتے رہے۔ دونوں بدترین قسم کے ڈکٹیٹر تھے۔ ابو رقیبہ نے اسلامی تعلیمات و احکامات کو بدلنے کی کوشش کی۔ گرمیوں کے روزے معاف کر دیے انہی صدور کے زمانے میں تقسیم وراثت کے قرآنی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مرد اور عورت کا حصہ برابر کر دیا گیا۔ حجاب اور داڑھی کے اسلامی شعائر کے خلاف بھی بڑی مہم چلائی گئی مغربی ایجنڈے کے مطابق روح محمد کو امت مسلمہ کے قلوب سے نکالنے کی جتنی کوشش کی جاتی ہے اس کا الٹا اثر ہوتا ہے اور مسلمانوں کی اپنے رحمن‘ اپنے رسولؐ اور اپنی اقدار کے ساتھ وابستگی مضبوط تر ہوجاتی ہے۔ جن ملکوں کی یاد ابھی تک میرے دل میں بسی ہوئی ہے ان میں تیونس سرفہرست ہے۔ میں عرب لیگ پر اپنے تحقیقی کام کے سلسلے میں صدر زین العابدین کے زمانے میں تیونس گیا تھا۔ تیونس کے دارالحکومت کا نام بھی تونس الخضرا ہے۔ نیا ملک ‘ نیا شہر اور شہر کا ناک نقشہ بھی ہمیں معلوم نہ تھا۔ میں ہوٹل کے ڈائننگ روم میں کھانے کے لئے پہنچا اب جو فہرست طعام پر نظر پڑی تو ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ دوسرے کھانوں کے ساتھ عربی مبین میں لکھا تھا لحم الخنزیر یہ پڑھ کر ہم پر کپکپی طاری ہو گئی۔ ناچار خشک روٹی پر مکھن لگا کر دو چار لقمے زہر مار کئے اور کمرے میں آ گئے۔ حبیب ابو رقیبہ نے فرانس سے آزادی کے لئے پرامن جنگ لڑی۔ 1957ء میں تیونس کو فرانس سے آزادی مل گئی۔ تیونس کی تحریک آزادی میں پاکستان نے پطرس بخاری کی قیادت میں یو این او میں بھر پور کردار ادا کیا تھا۔ اس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ تاہم حبیب ابو رقیبہ نے اپنی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ون پارٹی سسٹم اور ون مین ڈکٹیٹر شپ قائم کر لی اور 1947ء میں تاحیات صدر رہنے کا اعلان کر دیا۔ آمریت کے چنگل میں جکڑے ہوئے ملک سے ہی 2011ء میں بہار عرب کا آغازہوا اور پھر دیکھتے دیکھتے یہ باد بہاری ساری عرب دنیا میں چلنے لگی۔ مصر میں یہ بہار برگ و بار لائی اور پہلے آزادانہ انتخابات میں وہاں کی اسلامی پارٹی کے امیدوار محمد مرسی صدر منتخب ہوئے مگر داخلی مراعات یافتہ طبقے اور سول حکمرانی کے چسکے سے سرشار جرنیلوں اور عالمی سازشوں نے محمد مرسی کو کام نہ کرنے دیا اور یوں ایک فوجی آمر نے ٹینکوں اور توپوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ بعدازاں 5برس تک محمد مرسی کو زنداں میں اذیتیں دے دے کر شہید کر دیا گیا۔ اسلامی ممالک کی خوں رنگ تاریخ میں یہ ایک خونچکاں باب ہے۔ بہار عرب کے بعد تیونس کی اسلامی پارٹی النہفہ کوپہلے جمہوری انتخاب میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اب 2019ء میں صدارتی انتخاب ہوا تو 26امیدواروں میں سے پہلے مرحلے میں دو امیدوار نمایاں ہو کر سامنے آئے ایک قیس سعید اور دوسرے نبیل القروی ۔ دوسرا مرحلہ جو اکتوبر میں مکمل ہوا اس میں قیس سعید کو براہ راست 77فیصد ووٹ ملے اور یوں انہیں تاریخی کامیابی ملی۔ اب ذرا قیس سعید کی انتخابی مہم کا حال بھی سن لیجیے کہاں ان کے مخالف نبیل القروی نے اربوں خرچ کئے اور کہاں قیس نے چند ہزار۔ یہ معجزہ کیسے رونما ہوا؟ قیس کی ساری مہم نوجوانوں نے چلائی۔ اگرچہ وہ قانون کے ماہر پروفیسر تھے مگر ان کا وسیع تر تعارف نہ تھا وہ جب کبھی ایک ماہر قانون کی حیثیت سے ٹیلی ویژن پر آئے تو نہایت فصیح عربی میں دو ٹوک موقف کا اظہار کرتے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وراثت میں عورت مرد کا جو قانون تھا اس کے بارے میں آپ کا کیا رویہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کے احکامات ابدی اور دائمی ہیں ہم ان میں ہرگزکوئی تبدیلی نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ہم قرآنی احکامات کی پیروی کریں گے۔ قیس سعید نے برسر اقتدار آتے ہی اپنی جج بیگم کو بغیر تنخواہ 5سالہ چھٹی پر بھیج دیا تاکہ کوئی سکینڈل نہ جنم لے۔ انتخابی مہم کے دوران کرپشن کے ایک مقدمے میں ان کا مرکزی حریف گرفتار تھا۔ مگر قیس سعید نے اس کی کردارکشی کرنے کی بجائے اس وقت تک اپنی انتخابی مہم روک دینے کا اعلان کیا جب تک اس کی ضمانت نہیں ہو جاتی۔ اب ذرا صدارتی امیدواروں کے لائیو ٹیلی ویژن انٹرویو میں قیس سعید کے واضح موقف کی جھلک دیکھئے۔ یہ انٹرویو تیونس چینلز کے علاوہ الجزیرہ وغیرہ کے ذریعے ساری عرب دنیا میں سنا گیا۔ سوال:اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب: تعلقات بحالی ہی کا لفظ غلط ہے۔ اس کے لئے صحیح لفظ غداری ہے۔ جو بھی اس سے تعلقات رکھے گا وہ غدار ہو گا۔ قیس سعید نے کہا کہ ہم یہودیوں کے حقوق کی حفاظت کریں گے مگر اسرائیلی شہریوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کریں گے اور انہیں تیونس نہیں آنے دیں گے۔ یہ بات قیس سعید اس وقت کہہ رہے ہیں جب کہ عرب دنیا میں اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ سوال: 5سکینڈ رہ گئے ہیں کوئی خاص بات کہنا چاہتے ہیں؟ جواب: میں یہی کہوں گا کہ اسرائیل سے تعلقات غداری ہے۔ براہ راست صدارتی انتخاب کے دوران ہی وہاں پارلیمانی انتخاب بھی ہوا جس میں 217کے ایوان میں اسلامی پارٹی النہضہ کو راشد الفنوشی کی قیادت میں 52سیٹیں ملی۔ اس طرح وہ ایوان میں سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے۔ اگرچہ صدارتی انتخاب میں النہضہ کا امیدوار تیسرے نمبر پر آیا تھا مگر پارلیمنٹ میںالنہضہ ہی کی اکثریت ہے۔ پارٹی نے دور اندیشی اور سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے آزاد منتخب صدر قیس سعید کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ یہ مستحسن قدم ہے۔ اس سے صدر اور ایوان میں ہم آہنگی رہے گی۔ نیز عرب دنیا کی جمہوریت کش پالیسیوں کے پیش نظر داخلی استحکام بے حد ضروری ہے۔ جہاں بھی اسلامی جمہوری قوتیں سر اٹھانے لگتی ہیں وہاں آمرانہ قوتیں عالمی سازشوں کی حمایت سے وحشیانہ اقدامات سے اقتدار پر قبضہ کر لیتی ہیں۔ ماضی قریب میں مصر کی مثال سب کے سامنے ہے۔ تیونس کی نسبتاً نوزائیدہ جمہوریت کے سیاست دانوں اور ووٹروں کی بالغ نظری اور سمجھداری دیکھیں اور اس کا موازنہ پاکستان کی کہنہ سال جمہوریت کے قائدین کے رویوں اور ووٹروں کی کم نظری سے کریں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ نہ معلوم ہم کب اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے۔ بہرحال اسلامی خیالات رکھنے والے قیس سعید کی حیرتناک کامیابی سے دنیا حیرت زدہ ہے۔