گزشتہ دنوں بزم فرید رحیم یار خان کی طرف سے معروف سرائیکی شاعر سئیں قیس فریدی کی پہلی برسی منائی گئی، اس موقع پر ان کے فن ، فکر اور شاعری پر سیر حاصل گفتگو ہوئی ، مقررین نے بجا طور کہا کہ ایسے شاعر ملک و قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں ، یہ روز روز نہیں بلکہ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں ۔سئیں قیس فریدی 3 اگست 2018ء کو فوت ہوئے، وہ کینسر کے عارضہ میں مبتلا تھے ، ہزار اپیلوں کے باوجود ان کا سرکاری خرچ پر علاج نہ ہو سکا وہ سخت مالی مشکلات اور کسمپرسی کے حالات میں کینسر کی موت سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گئے، ان کو سرائیکی کے معروف شاعر مولوی لطف علیؒ کے دربار کے ساتھ مئو مبارک رحیم یار خان میں سپرد خاک کیا گیا، بلا شبہ وہ عظیم شاعر تھے اور سرائیکی ادب میں ان کی خدمات کو یاد رکھا جائے گا، اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ اچھے شاعر ہونے کے ساتھ اچھے انسان بھی تھے۔ شاعر قیس فریدی کا اصل نام مرید حسین اور والد کا نام حاجی قطب الدین ہے۔ 1950ء میں خان پور کے نواحی قصبے کھائی خیر شاہ میں پیدا ہوئے ، نو عمری یعنی چھٹی کلاس سے شاعری شروع کر دی ۔ اردو فاضل کرنے کے بعد وہ محکمہ تعلیم میں بحیثیت مدرس ملازم ہوئے ۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ارداس کے نام سے 1980ء میں ممتاز اکیڈمی بھٹہ واہن نے شائع کیا اس کے بعد ان کے تین مجموعے نمرو،توں سورج میں سورج مُکھی اور آم شام جھوک پبلشر نے شائع کیے اورایک شعری مجموعہ 1995ء میں سرائیکی ادبی مجلس بہاولپور نے شائع کیا اسی طرح سرائیکی اصطلاحات کے نام سے دھریجہ ادبی اکیڈمی نے کتاب شائع کی ۔ سب سے اہم یہ کہ ادارہ جھوک نے ان کا مرتب کردہ دیوان فرید شائع کیا ، جسے بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی مگر بعض حاسدین نے اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔اس کے علاوہ11جون 1990ء کو پہلا سرائیکی اخبار ’’جھوک‘‘ شائع ہوا تو اس میںقیس صاحب مضامین بھی لکھتے اور روزانہ ان کا قطعہ شائع ہوتا رہا ۔قیس فریدی کی بہت سے کتابیں ابھی غیر مطبوعہ ہیں ان کی ایک کتاب ’’گھاگھر‘‘ کے نام سے بزم ادراک خان پور نے شائع کی ہے ۔قیس فریدی بنیادی طو رپر سرائیکی کے شاعر تھے مگر انہوں نے اردو میں بھی شاعری کی ،ان کے استاد کا نام انعام اسعدی شاہجہان پوری ہے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ قیس فریدی کی وفات پورے وسیب کیلئے بہت بڑے صدمے کا باعث ہے ،ان جیسے شاعر اور لکھاری روز روز نہیں بلکہ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں ۔ہم اس بات کا برملا اظہار کریں گے کہ قیس فریدی کئی سالوں سے کینسر کے موذی مرض میں مبتلاتھے ،ہم نے بارہا حکومت کی توجہ مبذول کرائی کہ ان کا علاج سرکاری خرچ پر کرایا جائے مگر حکومت نے کوئی توجہ نہ دی اور آخر وہ سسک سسک کر فوت ہوئے ،یہ صدمہ پورے وسیب کیلئے کسی بڑے صدمے سے کم نہیں ہے ۔ہم کہتے ہیں کہ پنجاب کے دوسرے ادیبوں ،شاعروں اور فنکاروں کی خدمت ضرور ہونی چاہئے لیکن وسیب کو نظر انداز کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ قیس فریدی خان پور سے جس قصبے میں منتقل ہوئے اس کا نام مئومبارک ہے وہاں عظیم روحانی پیشوا حضرت حمید الدین حاکم کا مزار ہے اور عظیم سرائیکی شاعر مولوی لطف علی کا مقبرہ بھی اسی قصبے میں ہے ‘ علاوہ ازیں یہ مخادم میانوالی قریشیاں کا علاقہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ کسی مخدوم کو ان کے علاج کی طرف کیوں توجہ نہ ہوئی ؟ایک سوال یہ بھی ہے کہ وہ قیس فریدی ذات کے سومرہ تھے مگر اپنے نام کے ساتھ فریدی لکھتے تھے یہ نسبت خواجہ فرید کے حوالے سے تھی اور انہوں نے فریدیات پر بھی بہت کام کیا لیکن افسوس کہ خانوادہ فرید کے کسی شخص کو ان کے علاج کی توفیق نہ ہوئی ۔ نہ ہی حکومت پنجاب کا محکمہ اوقاف اس طرف متوجہ ہوا حالانکہ محکمے کے پاس خواجہ فرید کی وقف اراضی ساڑھے بارہ ہزار ایکڑ سے زائد ہے۔ ایک نام نہاد پیر قیس صاحب کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ تمہارا وقت قریب ہے ، مر جاؤ تو ہمارے پاس دفن کرنے کی وصیت کر جاؤ۔ قیس صاحب سخت ناراض ہوئے اور مجھے فون کر کے کہا کہ کیا شفا یابی کی دعا ایسے ہوتی ہے؟ قیس فریدی نے جوکچھ کیا سرائیکی کی محبت میں کیا آج ان کا نام ہے جبکہ ان کے مخالفین نے خواجہ فرید کا نام لیکر وسیب دشمنی کی ہے یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بڑے شہروں کی نسبت سے لوگ بڑے شاعر اور بڑے لکھاری بنے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ دیہات کی گودڑیوں میں لعل موجود ہیں ۔ شاعر ہفت زبان، سب کو کہلوانے کا شوق ہے ۔ قیس صاحب اپنی زندگی میں ایسا کہنے سے منع کرتے تھے ، معروف رائٹر جناب نذیر لغاری نے ان کو سرائیکی کا غالب لکھا تو اس پر قیس صاحب نے کہا کہ غالب بہت بڑے شاعر ہیں مگر کسی بھی شخص کی پہچان اپنی ہوتی ہے ۔ شاعر ہفت زبان نہ سہی لیکن یہ حقیقت ہے کہ قیس صاحب نے سرائیکی ‘ اردو ‘ سندھی ‘ ماراڑی اور دوسری زبانوں میں شاعری کی ہے۔ شاعری کے علاوہ وہ نثر کے بھی بادشاہ تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے لسانیات پر بھی کام کیا اور گو کہ انہوں نے حکمت کو کبھی پیشہ نہ بنایا مگر وہ بہت بڑے حکیم تھے اور ہومیو ڈاکٹر خورشید محمد ملک سے ان کی بہت دوستی تھی ۔ ان کے ہزاروں دوست اور عقیدت مند تھے مگر ڈاکٹر خورشید محمد ملک ‘ غلام حسین کیفی ، سید زاہد شاہ بخاری اور مرحوم منیر احمد دھریجہ سے ان کی دوستی مثالی تھی ۔ وہ بہت عظیم تھے ، یہی وجہ ہے کہ قیس فریدی کا نام پورے وسیب میں احترام سے لیا جاتا ہے اور وہ اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ہمیشہ زندہ رہیں گے کہ بڑے لوگ کبھی نہیں مرتے وہ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں اپنی سوچ ،اپنے فن اور اپنی شاعری کے حوالے سے ۔