شروع اللہ کے نام سے جو قادر مطلق ہے۔اس کے سوا کوئی نہیں جو اس کا دعویٰ کر سکتا ہو۔اس لئے اللہ کو جو چیز سب سے زیادہ ناپسند ہے وہ غالباً کبر اور تکبر ہے۔کبریائی صرف اللہ کو زیب دیتی ہے۔جو اس سے انکار کرتا ہے وہ گویا شرک کرتا ہے۔میںاکثر کہا کرتا ہوں کہ کبر کفر ہے۔خاص کر علم کا کبر اور پارسائی کا کبر تو نری ابلیسیت ہے۔جدید نفسیات میں بھی جو شخص خود مرکزیت کا شکار ہو جائے وہ خود کو بھی تباہ کر لیتا ہے اور دوسروں کے لئے بھی خود کو ناقابل قبول بنا لیتا ہے اور اگر اس کی اس خصلت میں حماقت یا جنون بھی شامل ہو جائے تو یہ ایک بہت بڑی تباہی کی نشانی ہوا کرتی ہے خدا ہمیں ایسے کسی قہر سے بچائے جو کبر کے جنون سے پیدا ہوا ہو۔ یہ تو بات چل نکلی اور ایک طرح کے وعظ کی طرف جا نکلی ہے۔بات تو مجھے حالیہ سیاست پر کرنا ہے جس نے قوم کی راتوں کی نیندیں اترا رکھی تھیں۔کپتان کہتا تھا میں آخری گیند تک لڑوں گا یہ بات کرکٹ میں تو اچھی لگتی ہوگی مگر یہاں جس تناظر میں کہی جا رہی تھی اور جو صورتحال تھی اس میں تشویش کا سبب تھی۔جب جیت کا کوئی امکان نہ ہو تو آپ کیا لڑ یں گے۔وکٹیں اکھاڑیں گے‘ پچ خراب کریں گے یا کوئی اور ’’روندی‘‘ ماریں گے مجھے اس کے لئے نسعلیق اردو میں کوئی لفظ یاد نہیں آ رہا۔کیا کریں گے۔مجھے کرکٹ کی دنیا ہی سے اس لاسٹ بال کے فلسفے کے حوالے سے دو باتیں یاد آئیں۔ایک تو ہمارے سرفراز نواز کے حوالے سے ہے اور دوسری بھی شاید ان کے حوالے سے یا پاکستان کے خلاف کھیلنے والے کسی مخالف بالر کے حوالے سے۔ان دنوں یہ ون ڈے میچ نئے نئے شروع ہوئے تھے۔اصول اور قانون مرتب ہو رہے تھے۔ویسے بھی یہ میچ کبھی 40اوورز کا ہوتا تو کبھی 60اوور کا۔ملک ملک کے موسم پر مشتمل تھا۔لندن میں دن لمبے تھے اس لئے 60اوورز کا میچ ہو جاتا تھا۔ہمارے ہاں سردیوں میں 40اوور بھی بہت تھے۔ان دنوں راتوں کو لائٹ کا انتظام بھی نہ تھا۔بات لمبی ہو گئی ۔بھارت کے خلاف ہمارا میچ آخری اوور تک جا پہنچا۔آخری بال اور رنز صرف اتنے کہ فتح بھی ہو سکتی تھی اور شکست بھی۔شاید ایک آدھ رنز کی بات تھی۔ذہین اور شرارتی بائولر نے بائونسرکرایا۔ایسابائونسر جس تک بلے باز کی رسائی ممکن ہی نہ تھی۔آسمانوں کو چھوتا ہوا بائونسر۔ان دنوں شاید ایسے بائونسر کو نوبال قرار دینے کا قانون نہیں ہو تا تھا۔میچ تو بچا لیا گیا ہو گا مگر اسے پاکستانی شائقین نے بھی سپورٹمین شپ کے خلاف قرار دیا۔ دوسری بار یہ کارروائی ہمارے ساتھ ہوئی جب بائولر نے آخری بال بازو گھمائے بغیر پھینک دیا۔یہ لیگل بال تھا‘اس سے پہلے کسی کو خیال تک نہ تھا کہ یہ نیگٹیو بال میچ کے ایک لمحے میں کس طرح رنز روکنے میں کارگر ہو سکتا ہے۔مگر اب تو پلوں کے نیچے بہت پانی بہہ چکا ہے کھیل نے اپنے اصول مرتب کر لئے ہیں اور پرانے اصولوں کی بھی ان خرابیوں کو دور کر دیا ہے جنہیں کوئی شرارتی ذہانت یا چلیے ذہین شرارت سے کہہ لیجیے کھیل کا پانسہ پلٹ سکتا تھا۔ قوم بار بار ‘ کئی بار‘ آخری بال کے انتظار میں سولی پر ٹنگی رہی۔خاص کر جب سب مرحلے طے ہو گئے۔یا جو کچھ ہونا تھا ہو گیا۔یہی سنا جاتا رہا کہ آخری بال تک لڑوں گا۔پھر کیا کیا۔ خدا کے لئے ہمیں اب سمجھ جانا چاہیے۔ اس ملک پر بہت ظلم ہو چکا۔مولانا اشرف علی تھانوی نے ایک بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ کسی ایک فن کی اصطلاح کو دوسرے فن میں استعمال کرنے سے غلطی پیدا ہوتی ہے ہر فن کو اس کی اصطلاحوں میں سمجھو۔یہ بات غالباً شعر فہمی کے حوالے سے خاص طور کہی گئی۔بعض زاہدان کرام شراب‘ساقی اور اس طرح کی اصطلاحوں کے استعمال سے چڑھتے تھے۔حضرت صاحب سمجھا رہے تھے ‘ہر فن کی اپنی اصطلاح ہوتی ہے اسے اس کے حوالے سے پرکھو۔یہاں تو معاملات کو گڈ مڈ کرنے کا ایسا ہولناک تماشا تھا کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تھی پہلے دن سونامی کو اس طرح برتا گیا گویا یہ بتایا جا رہا ہے کہ ایک بڑا طوفان آئے گا جو سب دشمنوں کو بہا کر لے جائے گا،یہ جانے بغیر کہ سونامی تباہی کی علامت ہے۔یہ سلسلہ چلتا گیا۔اصل شے مائنڈ سیٹ ہے۔اگر آپ کے دماغ ہی میں کشادگی کے بجائے الجھائو ہے اور وہ بھی تکبر سے لتھرا ہوا تو آپ حقائق تک کیا پہنچیں گے۔آپ کا خیال ہے کہ دنیا کے ہر معاملے میں آپ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔جب آپ ہر جگہ لیکچر دینے بیٹھ جائیں جن کے سامنے آپ کوزا نوئے تلمذطے کرنا ہو‘ ان کے سامنے بھی ،تو کیا نتیجہ نکلے گا۔آپ کہتے رہے مغرب کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔مغرب ہنستا رہا کہ شاید وہ بھی آپ کو کسی سے بھی زیادہ جانتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ آپ کو خوف پیدا ہوا کہ مغرب آپ کو نہیں چھوڑے گا۔کیونکہ وہ آپکو جانتا ہے۔ آپ نے اس قوم کے ساتھ بڑا ظلم کیا ہے ،بار بار لکھ چکا ہوں کہ آپ نے قوم کو خوابوں کی ایک ہوشربا دنیا میں پہنچا دیا پھر جب یہ خواب چکنا چور ہوئے تو بہتوں کی دنیاہل کر رہ گئی۔اس قوم کے کوئی پونے دو کروڑ ووٹروں نے آپ پر اعتماد کیا جن کے ووٹ نہ تھے ان کو شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد بہت زیادہ ہو جاتی ہے پھر آپ نے سب خواب توڑ ڈالے۔انہیں طلسمات کی اس دنیا میں تنہا چھوڑ دیا جہاں چاروں طرف جادو کی ایک عجیب دنیا تھی۔طرح طرح کے جادوگر تھے‘ طرح طرح کے تماشے تھے۔شاید باقی گناہ تو معاف ہو جائیں مگر آپ نے تو ریاست مدینہ کا خواب بھی ہمارے ذہنوں میں نقش کر دیا جب یہ خواب بکھرا ہے تو اس وقت ہماری حالت ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ آنے والے دنوں میں راستہ کیا ہو گا۔ میری ژولیدہ خیالی سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ میں کسی سنجیدہ تجزیے کی طرف مائل ہی نہیں ہو رہا۔ذہن اس طرح جھنجلاہٹ کا شکار رہا ہے‘ اعصاب اس طرح تنے رہے ہیں، ایک دن‘ دو دن ‘ سچ پوچھیے تو یہ تین چار برس کا عرصہ ایسے ہی گزرا ہے۔مگر جاتے جاتے تو یہ شخص آخری بال تک لڑنے کا عزم ظاہر کر کے ایک ایسی صورت حال سے دوچار کر گیا کہ چند گھنٹے تو ایسے گزرے کہ پورے عالمی میڈیا کے اعصاب بھی جواب دے گئے تھے۔ مجھے کل رات کا لمحہ لمحہ‘ بلکہ سارے دن کی کارروائی اور خبریں یاد آتی ہیں تو یوں لگتا ہے‘ ایک بوجھ تھا کہ جو اتر گیا ہے۔ہاں مجھے اندازہ ہے۔اس سے کام نہیں چلے گا۔کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔بہرحال اس وقت حالات اچھے نہیں ہیں جانے کتنے فتنے سر اٹھائیں جانے کتنے چیلنج درپیش ہوں۔ آنے والی حکومت کی بات نہیں کر رہا‘پاکستان کی مملکت کو۔ہمیں سنجیدگی سے ڈٹ جانا چاہیے۔آخری بال ہو چکا مگر میچ ابھی ختم نہیں ہوا۔