پیپلز پارٹی کی طلب کردہ کل جماعتی کانفرنس آج منعقد ہونے جا رہی ہے جس سے بہت سی توقعات بہت سے مایوس افراد نے قائم کر رکھی ہیں اس یقین کے ساتھ انکی مایوسی میں مزید اضافہ ہوگا لیکن پھر بھی با دل نا خواستہ کچھ نہ کچھ نتیجہ پانے کی امید تو نہیںخواہش رکھتے ہیں۔ گزشتہ روز بلاول بھٹو اور میاں نواز شریف کے رابطے کے بعد بقول شخصے کل جماعتی کانفرنس کو چار چاند لگنے والے ہیں۔ اس رابطے میں بلاول کے دعوے کے مطابق میاں نواز شریف نے اس کانفرنس سے ویڈیو کے ذریعے لندن سے شرکت کی حامی بھر لی ہے اور وہ خطاب بھی فرمائیں گے۔شرکت کی حد تک تو ممکنات میں سے ہے لیکن خطاب وہ کرینگے یا نہیں،اس بارے میں بہت سے شکوک و شبہات ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ انکے لندن میں قیام کے دوران ملکی سیاسی معاملات میں مکمل خاموشی ہے۔ انکی طرف سے حوالہ دیکر انکے چاہنے والے اور بیٹی مریم کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں لیکن انہوں نے خود کبھی منظر عام پر آ کر کچھ نہیں کہا۔ اگر وہ کچھ کہنے کے موڈ میں ہوتے تو لندن میں بہت فعال میڈیا موجود ہے اور اب تک بہت سے معاملات پر بیان داغ چکے ہوتے۔ انکی خاموشی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے مریم کے نیب پیشی کے موقع پر پیش آنے والے واقعات پر بھی کوئی بات نہیں کی جس میں بقول مسلم لیگ (ن) مریم کو خدانخواستہ نقصان پہنچانے کی سازش کی گئی تھی۔ ایک باپ کے لئے ایسے معاملات پر خاموش رہنا کسی طرح بھی ہضم ہونے والی بات نہیں ہے جبکہ بیٹی سیاسی وارث بھی ہو۔اس پس منظر میں بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ اوّل تو میاں نواز شریف عین آخری لمحے اس کانفرنس مں شرکت سے معذرت کر لیں گے یا صرف شریک ہونگے لیکن خطاب نہیں کرینگے۔اگر وہ خطاب کرتے ہیں اور اپنے ووٹ کو عزت دو کے بیانئے کی تجدید کرتے ہیں تو پھر اس کل جماعتی کانفرنس کی یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی ورنہ ٹائیں ٹائیں فش والی بات ہے۔اس کانفرنس سے جس قسم کی امیدیں لگائی جا رہی ہیں وہ پوری نہیں ہو پائیں گی۔ سب سے اہم اور بڑی پیش رفت جس کی جمیعت علمائے اسلام (ف) امید لگائے بیٹھی ہے وہ اسمبلیوں سے استعفے ہیں۔ جس دن 2018ء کے حتمی انتخابی نتائج آئے ہیں اس دن سے مولانا فضل الرحمن اس مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ۔ حکومت کو اگر رخصت کرنا مقصود ہے تو انکے خیال میں اسکے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔انکی یہ سوچ اس بات کی بھی غمازی کرتی ہے کہ اس وقت حکومت کے خلاف لوگوں کو سڑکوں پر نکالنا ممکن نہیں۔ اگر وہ اس قسم کا خیال رکھتے تو ایک بار پھر دھرنے اور تحریک کا مشورہ دیتے لیکن اس بار انکا پورا زور استعفوں پر ہے ۔ کیا وہ اس مطالبے کو اپنے سیاسی حلیفوں سے منوانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟میرے خیال میں منوانا تو دور کی بات ہے اس بارے میں کل جماعتی کانفرنس میں شامل باقی سیاسی پارٹیاں شاید بات بھی نہ کرنا چاہیں۔پیپلز پارٹی تو با لکل بھی اس بات سے متفق نہیںہو سکتی کیونکہ اسکے لئے سب سے بڑی قربانی تو انہیں دینا ہوگی۔ کوئی پاگل ہی ہو گا جو ان حالات میں جس میں پیپلز پارٹی کی ساری قیادت کسی نہ کسی الزام میں نیب کی گرفت میں ہے سندھ حکومت کو خیر باد کہے۔ حکومت میں ہوتے ہوئے انکے چھکے چھوٹے ہوئے ہیں اگر حکومت بھی نہ رہی تو کیا حال ہو گا۔پیپلز پارٹی کے جس طرح سے عمران خان کی حکومت سے معاملات چل رہے ہیں اس صورتحال میں وہ حکومت پر اس حد تک تو دبائو ضرور رکھنا چاہتے ہیں کہ انہیںکرپشن کے مقدمات میں کسی قسم کی رعایت مل جائے لیکن وہ کشتیاں جلا کر کبھی نہیں نکلیں گے ۔ویسے بھی گیارہ سو ارب روپے کا پیکیج تازہ تازہ منظور ہوا ہے اور جس کمیٹی نے اسکو خرچ کرنے کا منصوبہ بنانا ہے اسکی سربراہی وزیر اعلٰی سندھ کررہے ہیں تو ایک چانس لینے میں کیا ہرج ہے کہ اس رقم سے کراچی کی جو بھلائی ہو اسکو کیش کرایا جائے یا شاید کیش پانے کی صورت نکل آئے جسکے امکانا ت بہت کم ہیں کیونکہ جن لوگوں کے ذریعے یہ رقم خرچ ہونی ہے ان سے کیش لینا شیر کے منہ سے نوالا چھیننے کے مترادف ہے۔ اسی طرح سے مسلم لیگ (ن) کی اپنی مجبوریاں ہیں۔انکے اندر لیڈرشپ کی جو جنگ جاری ہے وہ شاید یہ فیصلہ ہی نہیںکر پا رہے کہ انہیں اس صورتحال میں کیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہے۔ ایک خدشہ بحر حال انکی صفوں میں موجود ہے کہ اگر وہ استعفوں کا فیصلہ کرتے ہیں تو انکے کتنے منتخب ارکان اسکی تعمیل کرینگے۔پھر یہ بھی کسی کو یقین نہیں کہ اگر تمام اپوزیشن جماعتیں استعفے دیدیں تو کیا وہ حکومت کو مجبور کر پائیں گے کہ وہ استعفٰی دیدے اور نئے انتخابات کا اعلان ہو جائے۔ اسکے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیںکہ عمران خان ایسے کسی دبائو میں آ کر حکومت چھوڑیں۔ البتہ یہ بات قرین قیاس ہے کہ اگر اپوزیشن استعفے دے تو انکی خالی نشستوں پر حکومت الیکشن کمیشن کو انتخابات کا کہہ دے اور عمران خان اسمبلیوں میں وہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں جسکی خواہش کا اظہار وہ اکثر قانون سازی میں رکاوٹیں آنے پر کرتے ہیں کہ اپوزیشن بلیک میل کرتی ہے اور اپنے لئے ہر وقت این آر او کی تلاش میں ہے۔ جہاں تک سڑکوں پر احتجاج کی بات ہے تو اگر ایسا کوئی فیصلہ کل جماعتی کانفرنس کرتی ہے تو اسکے ناکام ہونے کے امکانات کہیں زیادہ ہیں۔ ایک تو ہماری سیاسی قیادت کیمروں اور ٹی وی چینلز کے سٹوڈیو سے تحریک چلانے کی اتنی عادی ہو چکی ہے کہ انکے لئے سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنا آسان نہیں ہو گا۔ دوسرا کرونا کی وبا ء کے دور میںیہ آسان نہیں ہو گا کہ لوگ آسانی سے اجتماعات میں شرکت کریں۔ اگرچہ اس وقت کرونا کی صورتحال بہت بہتر ہے لیکن پھر بھی زیادہ تر لوگ احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے پر تیار نہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ استعفوں سے لیکر عوامی احتجاج کی کوئی صورت اس کل جماعتی کانفرنس سے نکلتی نظر نہیں آتی۔زیادہ امکان یہ پایا جاتا ہے کہ اپوزیشن مزید تقسیم ہوجائے گی۔اعتماد کا فقدان پہلے ہی بہت ہے رہی سہی کسراس کانفرنس کے بعد پوری ہو جائے گی۔