پھر چشم نیم وا سے ترا خواب دیکھتا اور اس کے بعد خود کو تہہ آب دیکھتا تلخی میں بھی وہ بھولا نہیں آپ اور جناب تہذیب اس کی دیکھتا آداب دیکھتا یہ چشم نیم وا تو وہی ادھ کھلی آنکھ ہے جو ڈر سے نہیں پوری کھولی جاتی کہ کہیں دلفریب خواب ٹوٹ نہ جائے یہ حقیقت اور گمان یا فسانہ کے درمیان کی صورت ہے۔ یہ خواب بھی عجیب ہوتے ہیں یہ صرف محاورہ نہیں کہ بلی کو چھیچھڑوں کے خواب آتے ہیں۔ اصل میں ہماری شدید خواہش اور تمنا ہی خواب بنتی ہے اور جب یہ خواب تعبیر سے آشنا نہیں ہوتے تو آنکھیں نم بھی ہو جاتی ہیں دوسری بات کو سمجھنے کے لئے آپ کو وہ شعر ذہن میں لانا پڑے گا۔ رفتہ رفتہ عشق میں بے آبرو ہوئے پہلے تھے آپ آپ سے تم تم سے تو ہوئے۔ اس سے پہلے کہ ہم کالم کی طرف آئیں کہ جس میں ہمیں طلال چودھری کی بات بھی کرنی ہے پہلے ایک دلچسپ پوسٹ دیکھ لیں کہ جس طرح مرغ اذان دے کر نماز نہیں پڑھتا اسی طرح عمران خان تقریر کر کے عمل نہیں کرتے۔ ویسے نصیحت ہمیشہ دوسرے کو عمل کی ترغیب دینے کے لئے ہوتی ہے شیکسپئر نے بھی اپنے ایک ڈرامے میں کہا تھا کہ بیس لوگوں کو تقریر کرنا بہت آسان ہے مگر ان بیس میں بیٹھ کر تقریر سننا بہت مشکل ہے۔ بہرحال خواب دکھانا خواب دیکھنے سے بڑا فن ہے۔ پھر یہ بات تو دل کی ہے جس پر بھی آ جائے یہ دل دلیل کب مانتا ہے۔ حافظ برخوردار نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا: میں نیل کرایاں نیلکاں میرا تن من نیل و نیل میں سودے کیتے دلاں دے تے رکھے نین وکیل تو قبلہ ہم نے بھی عمران خان پر اعتبار کیا تھا۔ داغ لگا تو داغ ہی یاد آیا۔ غضب کیا ترے وعدے پر اعتبار کیا۔ جب دل کی طرف جھانکتے ہیں تو اپنی ہنسی چھوٹ جاتی ہے: دل بھی کیسی شے ہے دیکھو پھر خالی کا خالی گرچہ اس میں ڈالے میں نے آنکھیں بھر بھر خواب خیر ہم ڈرتے ہوئے خان صاحب سے ان کے وعدوں اور دعوئوں پر اب اصرار نہیں کرتے کہ وہ جواباً ایک تقریر داغ دیتے ہیں اور پھر اس تقریر پر حاشیہ برداروں کی مزید تقریریں یعنی ایک سلسلہ چل نکلتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ اس انتظار میں ہونگے کہ میں نے طلال چودھری کی بات شروع نہیں کی۔ آپ بھی یقینا ایسے معاملات میں خوب دلچسپی لیتے ہیں پی ٹی آئی کے ڈھنڈورچیوں کی تو جیسے لاٹری نکل آئی ہے۔ وہ سب خاص طور پر فیاض الحسن چوہان اور شہزاد اکبر تو باقاعدہ چیزہ لے رہے ہیں۔ یہ چیزہ مخصوص اصلاح جو فنکاروں میں استعمال ہوتی ہے کہ کسی کو چھیڑ کر لطف اٹھانا تو طرح طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں بظاہر طلال چودھری سے ہمدردی مگر دل کچھ اور چاہتا ہے۔ جی یہ بالکل درست ہے کہ پی ٹی آئی والوں کو تو ایسا معاملہ اللہ دے۔اصل میں ان بے چاروں کے پاس کچھ رہا نہیں۔ کارکردگی زیرو سے بھی نیچے۔ اب وہ بلی کی طرح کھمبا نوچتے نوچتے طلال چودھری کو پڑ گئے ہیں۔میں کوئی طلال چودھری کی وکالت نہیں کر رہا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جتنی بھی رسوائی تھی ۔میں نے آپ کمائی تھی۔ اور پھر غالب نے بھی کہا تھا جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں۔ میں تو اس معاملے میں اجتناب اس لئے کروں گا کہ اس حوالے سے ایک باعزت اور خاندانی عورت عائشہ رجب کا نام آ رہا ہے اور انہوں نے کسی بھی بات سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے کہ وہ ماں بہن اور بیٹی ہیں۔ لوگ فضول میں سوشل میڈیا پر اسے افسانہ نہ بنائیں۔ ہمیں اس بات کا ہر صورت خیال رکھنا ہو گا۔ ن لیگ نے کمیٹی بنا دی ہے سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ پی ٹی آئی والوں اس معاملے میں لڈیاں ڈالنے کی بجائے اس شرمناک واقعہ پر دھیان دینا چاہیے جو مجید امجد کے شہر ساہیوال میں صوفیہ قاسم کے ساتھ پیش آیا کہ پی ٹی آئی کے رہنما نوید اسلم نے غنڈہ گردی کی انتہا کرتے ہوئے پوسٹ آفس کی آفیسر کو زدوکوب کیا۔ سوشل میڈیا پر محترمہ نے بنفس نفیس سب کچھ بتایا۔ ساری دنیا اس ویڈیو کو سن رہی ہے۔ محترمہ خود بتا رہی ہیں کہ اس نے مجھے تھپڑ مار دیا۔ خان صاحب اب اپنے شیخ صاحب سے پوچھیے کہ یہ عورت بیچاری اپنے آفس میں بیٹھی سرکاری ذمہ داری نبھا رہی تھی۔ پتہ چلا کہ وہ پی ٹی آئی کا ضلعی انفارمیشن سیکرٹری وہ وہاں کبھی بزدار تو کبھی کسی کا حوالہ دے کر کہہ رہا تھا سب کو اٹھوا دوں گا۔ اس غنڈہ گردی کے سب گواہ ہیں۔ کیا حکومت اس نوید اسلم کا نوٹس لے گی۔ اس طرح عورتوں پر مرد تو ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ اس کا نوٹس تو فی الفور چیف جسٹس کو لینا چاہیے کہ اس میں تشدد کا شکار ہونے والی عفیفہ خود دہائی دے رہی ہے۔ مجھے نہ جانے کیوں آج مجید امجد یاد آ رہے ہیں کہ انہوں نے تو نہر کے کنارے کھڑے درختوں کے کٹ جانے پر نوحہ لکھا تھا۔وہ حساس شاعر اپنے شہر میں یہ غنڈہ گردی دیکھئے تو شاید عدم برداشت کے باعث مر ہی جاتے آپ اس طرح مرنے پہ حیران نہ ہوں۔ ہمارے دوست یعقوب پرواز کا شعر ہے: ماضی کا انسان سنا ہے غیرت سے بھی مر جاتا تھا بات مجید امجد کی ہوئی تو مجھے اپنے بزرگ دوست حاجی بشیر احمد بشیر بھی یاد آئے۔ کیا کمال شاعر تھے ان کا شعری مجموعہ قوس خیال آیا تو دیباچہ مجید امجد نے تحریر فرمایا۔ کمال کے آدمی تھے بشیر احمد بشیر۔ ساہیوال کے ڈی سی آئے تو انہوں نے وہاں کی لائبریری کی کتب اوپر کہیں رکھوا دیں اور نیچے دفتر بنا لیا ایک عام اکٹھ میں ڈی سی نے بشیر احمد بشیر سے پوچھا کہ انہیں یہ عمل کیسا لگا۔بشیر صاحب فقیر آدمی تھے کہنے لگے وہی کچھ آپ نے کتابوں کے ساتھ کیا جو چنگیز خان نے لائبریریوں کے ساتھ کیا تھا۔پھر وہ اپنی بے باکی بھگتتے رہے۔ساہیوال ادب سے مالا ملا شہر ہے یہاں مجید امجد سٹیڈیم میں بیٹھتے اور وہاں منڈلی جمتی۔ منیر نیازی سے لے کر ناصر شہزاد اور طارق عزیز کون کون وہاں نہ بیٹھا ہو گا۔ کمال کی بات یہ کہ چائے کا بل ہمیشہ مجید امجد دیتے حالانکہ وہ کوئی مالدار نہ تھے۔خود دار اور وضعدار تھے۔ ساہیوال کی ایک اور زبردست ہستی جعفر شیرازی یاد آئے ان کے ساتھ ہماری بہت گپ شپ رہی۔انتہائی زندہ دل کہ نوجوانوں والی باتیں کرتے۔ ایک دن منیر نیازی کہنے لگے۔ اوئے جعفر شیرازی سمجھداری کی بات کیا کرو اب تمہاری وگ میں بھی سفید بال آ گیا ہے چلیے مجید امجد کے لازوال شعر کے ساتھ اجازت: کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد تری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول