دو روز قبل کالم میں اپنی پسندیدہ موضوعات اور دلچسپیوں کا تذکرہ کیا۔ ایک بات رہ گئی تھی کہ سپورٹس بھی میرا پسندیدہ شعبہ ہے۔کھیلوں میں سب سے زیادہ کرکٹ سے دلچسپی ہے، مگر ٹینس، فٹ بال بھی پسند ہیں۔ فٹ بال کے ورلڈ کپ میچز اور ٹینس کے گرینڈ سلم ٹورنامنٹ خاص کر ومبلڈن ۔ایک زمانے میں ہاکی میچز بھی شوق سے دیکھتے تھے۔ریسلنگ البتہ سخت ناپسند ہے ۔ اپنے آپ کو عقلمند نہیں سمجھتے ، مگر یہ قطعی خواہش نہیں کہ کوئی اتنی شدت سے ہمیں بے وقوف بنائے ۔صاف نظر آرہا ہوتا ہے کہ یہ نورا کشتیاں ہیں۔ پلاننگ کے تحت، فلمی ٹچ دے کر ریسلنگ کرائی جاتی ہے اور ہمارے ہاں لاکھوں لوگ دماغ کو زحمت دئیے بغیر اسے دیکھتے رہتے ہیں۔ دو تین کھیل ایسے ہیں جن میں کوشش کے باوجود کبھی دلچسپی پیدا نہیں ہوسکی۔ گالف اور دوسرا بیس بال ۔ گالف گرائونڈز دیکھنے میں جتنے خوبصورت ہیں، گالف کا کھیل اتنا ہی سست اور بور ہے۔بیس بال کھیل پر فلمیں دیکھی ہیں، کرکٹ سے تھوڑا بہت مشابہہ ہونے کے باوجود دلچسپ نہیں لگا۔ ہر کلچر اور سماج کے اپنے پسندیدہ کھیل ہیں۔ہمارے ہاں سپورٹس سے مراد صرف کرکٹ ہی ہے۔ ہم پاکستانی کرکٹ ہی سے لطف اٹھاتے ہیںاور ہمارے اخبارات کے کھیلوں کے صفحات پر کرکٹ ہی چھائی ہے۔میں اخبار کا سپورٹس پیج ضرور پڑھتا ہوں۔سپورٹس کالم بھی لکھتا رہا ہوں۔ بیس بائیس سال پہلے یہ سادہ اصول اپنایا کہ روزانہ کھیلوں کا صفحہ لازمی پڑھنا ہے۔ تین سو پینسٹھ کو بیس یا بائیس سے ضرب دیں تو یہ ساڑھے سات ہزار کے لگ بھگ دن بن جاتے ہیں۔ ان دنوں میں بمشکل سو دن ایسے ہوں گے جب کسی مجبوری یا پریشانی کے باعث کھیلوں کا صفحہ نہیں دیکھا ہوگا۔یہ فائدہ ہواکہ کبھی لکھنا پڑے تونوٹس بنانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تمہید طویل ہوگئی، بتانا یہ تھا کہ دو دن پہلے کھیلوں کی خبریں دیکھتے ہوئے ایک خبر پر چونکا۔ جسٹن لینگر آج کل آسٹریلیا کی قومی کرکٹ ٹیم کے کوچ ہیں۔ ان کا ایک حالیہ بیان دیکھا۔ لینگر نے آسٹریلوی ٹیم کو مشورہ دیا کہ وہ ہالی وڈ فلم سٹار وِل سمتھ سے سبق حاصل کریں۔دراصل آسٹریلوی کرکٹ ٹیم نے جلد انگلینڈ کا دورہ کرنا ہے، کورونا کے باعث بہت ہی محدود سوشل سرکل میں کھلاڑیوں کو رہنا پڑے گا، حفاظتی دائرے سے یہ باہر جا سکیں گے نہ کوئی داخل ہوسکے گا۔لینگرنے اس حوالے سے اپنی ٹیم کے ساتھ زوم میٹنگ میں یہ کہا،’’ ہمیں اداکار ول سمتھ کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے،ہمیں تیاری نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہر وقت تیار رہنا چاہیے ، تاکہ جب بھی موقع آئے، ہم تیار ہی ملیں۔ ‘‘ آسٹریلوی کرکٹ کوچ کے اس بیان کے بعد وِل سمتھ کی یہ اوریجنل کوٹیشن پڑھنے کی کوشش کی۔ اس تلاش میں ول سمتھ کی بے شمار کوٹیشن ملیں، اس کی کئی موٹیویشنل ویڈیوز دیکھیں، اس کے بہت سے ون لائنر جملے پڑھے جو اس نے اپنے مطالعے سے اخذ کئے یا خود تخلیق کئے۔ ول سمتھ کے بارے میں نہ جاننے والوں کو خبر ہو کہ یہ دنیا ئے فلم کا نامور اداکار، پروڈیوسر اور ریپ سنگر ہے ۔ اس کی کئی فلمیں سپرہٹ رہی ہیں، بعض نے تہلکہ مچایا۔ آغاز اس نے ریپ گانے سے کیا، ٹی وی پر کام کر کے شہرت کمائی اورپھرہالی وڈ کی فلموں میں آیا۔واحد اداکار ہے جس کی مسلسل گیارہ فلموں نے عالمی سطح پر ڈیڑھ سو ملین ڈالر سے زیادہ کا بزنس کیا۔The Pursuit of Happyness (مسرت کا تعاقب )اس کی ایسی فلم ہے، جسے شائد ہی کوئی بھلا پایا ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ مالی مشکلات اور پریشانیوں کے دور میں یہ فلم دیکھنے والے کو نیا حوصلہ اور توانائی ملتی ہے۔ فلم کے کئی مکالمے ہلا دینے والے ہیں۔ ول سمتھ نے عظیم باکسر محمد علی پر بنی فلم میں علی کاکردار ادا کیاتھا۔ ول سمتھ کی فوکس، سیون پونڈز، آئی ایم لیجنڈ اور کئی دیگر فلمیں مشہور ہوئیں۔ ول سمتھ کی بیشتر کوٹیشنز اتنی خوبصورت ، پراثر اور دل کو چھونے والی ہیں کہ ان میں سے کچھ اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنے پر مجبور ہوگیا۔ یہ سب سمتھ کے اپنے لکھے گئے جملے نہیں، بعض فوک وزڈم ٹائپ جن کے مصنف نامعلوم ہیں تو کچھ فلموں کے مکالمے ہیں، مگر ہم تک یہ ول سمتھ کے توسط سے پہنچے ہیں۔ ابتدا ول سمتھ کے ایک ہلا دینے والے فقرے سے کرتا ہوں جو اس نے ایک ٹی وی انٹرویو میںپروگرام کے میزبان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔یہ کلپ نیٹ پر موجود ہے، اینکر پہلے مسکرا رہا تھا،مگر فقرہ اتنا مضبوط اور تیز تھا کہ وہ بھی سکتے میں آ گیا۔ ول سمتھ کا کہنا تھا: آپ میں مجھ سے زیادہ ٹیلنٹ ہوسکتاہے، آپ مجھ سے زیادہ سمارٹ ہوسکتے ہیں،لیکن اگر آپ میرے ساتھ ٹریڈ مِل (وہ مشین جس پر تیز واک یارننگ کی جاتی ہے)پر آئیں اور مقابلہ کریں تو ایک ہی آپشن ہے۔و آپ تھک ہار کر مشین سے ہٹ جائیں گے یا پھر میں بھاگتے بھاگتے گر کر دم توڑ دوں گا۔ یہ بہت سیدھا معاملہ ہے۔آپ مجھےOut Work نہیں کر سکتے۔‘‘ یعنی سمتھ جیت جائے گا یا پھر دوسرا صرف اس صورت میں جیت سکے گا جب سمتھ کی سانسیں ختم ہوجائیں گی۔ ’’لوگوں کے پیچھے نہ جائو، اپناراستہ خود بنائو، اپنے انداز سے کام کرو اور سخت محنت کرو۔ اچھے لوگ جن کے لئے آپ کے پاس حقیقی جگہ ہوگی، وہ آپ کے پاس آ جائیں گے اور پھرجدا نہیں ہوں گے۔‘‘ ’’ دولت اور کامیابی آدمی کو تبدیلی نہیں کرتی، وہ صرف وہی دکھا دیتی ہے،جو وہاں حقیقت میں (اس شخص کے اندر)موجود تھا۔‘‘ ’’خوف حقیقی نہیں ہوتا۔ صرف ایک جگہ ایسی ہے جہاں خوف موجود ہوتا ہے، وہ ہمارے مستقبل کے حوالے سے سوچ ہے۔ یہ ہمارے تخیل کی پیداوار ہے،ہمیں ان چیزوں سے ڈرانا جو اس وقت موجود نہیں اور ممکن ہے مستقبل میں بھی نہ آئیں۔ایسا کرنا حماقت ہے۔ یہ بات مگر یاد رکھیں کہ خطرہ(Danger) ایک حقیقت ہے ، مگر خوف صرف ایک چوائس ہے۔‘‘ ’’زندگی کے سفر میں کامیابی کی دو چابیاں ہیں، بھاگنا اور پڑھنا۔ جب آپ رننگ کرتے ہیں تو ایک سٹیج پر آپ کے اندر کا آدمی بار بار کہتا ہے ، میں تھک گیا ہوں، میرا سانس پھول گیا ہے، مجھ میں ہمت نہیں اور اب مزید بھاگنا ممکن نہیں۔اس وقت آپ بھاگنا ختم کر دیتے ہیں۔ اپنے اندر کے اس آدمی کو شکست دینے کے لئے آپ کو سیکھنا ہوگا کہ جدوجہد ختم نہیں کرنی، دوڑنا بند نہیں کر دینا۔ جب آپ یہ سیکھ لیتے ہیں، تب زندگی کے مشکل ترین لمحات میںبھی حوصلہ نہیں ہارتے ۔ جہاں تک مطالعہ کا تعلق ہے، یہ سمجھ لیں کہ بے شمار، ان گنت لوگ ہم سے پہلے زندگی گزار چکے ہیں۔اپنے گھر والوں، سکول کالج، اپنے مخالفوں وغیرہ کے ساتھ ڈیل کرنا کوئی ایسے مسائل نہیں جو ہم سے پہلے والے لوگ نہ بھگت چکے ہوں۔ان کے بارے میں کسی نہ کسی کتاب میں کچھ نہ کچھ لکھا ہوا ہے(بس اسے پڑھنے کی ضرورت ہے۔)‘‘ ’’میں سمجھتا ہوں کہ آپ زندگی میں جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، اس کے بارے میں آپ کو سیکھنے کی ضرورت ہے، مگر ضروری نہیں کہ یہ سکول یا کالج میں سیکھا جائے۔‘‘ ’’زندگی میں لوگ ہماری زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں، وہ ہماری تحقیر کرتے اور براسلوک کرتے ہیں۔جو کچھ انہوں نے کیا، اس کا حساب خدا کو ان سے لینے دیں۔ اس لئے کہ آپ نے دل میں نفرت پالی تو وہ آپ کو بھی کھا جائے گی۔‘‘ ’’اگر آپ کسی کی زندگی بہتر نہیں کر رہے تو آپ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اس لئے کہ آپ کی زندگی صرف دوسرو ں کی زندگی بہتر کرنے سے ہی بہتر ہوگی۔‘‘ ’’آپ کے پاس جتنا بھی ٹیلنٹ ہو،ناکامی مقدر بنے گی اگر آپ نے مہارت حاصل نہیں کی۔ مہارت صرف پریکٹس سے حاصل ہوتی ہے۔ بے شمار گھنٹوں کی پریکٹس۔ جان توڑ محنت کریں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے آپ کو مزید بہتر کریں۔ ‘‘ ’’مجھے پلان بی بنانے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی کیونکہ یہ آپ کو پلان اے پر پوری یکسوئی سے عمل کرنے سے روکتا ہے۔‘‘’’حقیقت پسند بننا دراصل اوسط درجے کا انسان بننے کا سب سے معروف راستہ ہے۔ (ایک زمانے میں)یہ کتنی غیر حقیقت پسندانہ بات تھی کہ کوئی کمرے میں داخل ہو، ایک سوئچ دبائے اور کمرہ روشنی سے بھر جائے۔ خوش قسمتی سے ایڈیسن ایسا نہیں سوچتا تھا۔ اسی طرح یہ کتنی غیر حقیقت پسندانہ بات تھی کہ دھات کے ٹکڑوں کو موڑ کر اس پر سوار ہو کر اڑتے ہوئے سمندر عبور کر لیا جائے۔ خوش قسمتی سے رائیٹ برادران ایسا نہیں سوچتے تھے اور انہوں نے جہاز بنا ڈالا۔‘‘ ’’آپ کا جوبھی خواب ہے، اپنے پاس موجود ہر اضافہ روپیہ اس کی تکمیل کے لئے خرچ کر ڈالو۔ ‘‘ ’’آپ دیوار بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے آپ کو سب سے پہلے ایک اینٹ بہت اچھے طریقے سے لگانا ہوگی، یہ کام مسلسل کرتے رہیں تو بڑی سے بڑی دیوار بن جائے گی۔ میرے لئے کوئی بھی بڑا ٹاسک صرف وہی پہلی اینٹ بہترین طریقے سے لگانا ہے۔‘‘ اور یہ ہے وہ جملہ جس سے آسٹریلوی کوچ متاثر ہوا اور جو آج کا کالم لکھوانے کا باعث بنا۔ ’’اگر آپ تیار ہوں تو آپ کو تیار ہونے یا تیاری کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ میں نے اپنے آپ کو اس انداز میں ٹرینڈ کر رکھا ہے۔‘‘