کبھی آپ نے سوچا ہماری جامعات میں ایک فکری جمود سا کیوں طاری ہے؟ جدید دنیا میں نئی تحقیقات یونیورسٹیوں میں ہو رہی ہیں۔آئے روز کوئی تحقیق پڑھنے کو ملتی ہے اور معلوم ہوتا ہے یہ فلاں یونیورسٹی کی تحقیق ہے۔ کورونا پر بھی ان جامعات میں مسلسل علم و تحقیق کا کام ہو رہا ہے اور روز کوئی نئی بات سامنے آتی ہے تو پتا چلتا ہے یہ فلاں تعلیمی ادارے کی تحقیق کے نتائج ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا تحقیقی کام ہماری جامعات میں کیوں نہیں ہو رہا ؟ ہمارے ادارے فکری جمود کا شکار کیوں ہیں؟ علم کی دنیا میں ہمارا حصہ کتنا ہے؟ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے اور آنے والے دنوں میں خطرات اور امکانات کی صورت گری کیسی ہو گی ، اس خطے میں کیا پیش رفت ہو رہی ہے ، مشرق وسطی کے تازہ رجحانات کیا ہیں ، ان جیسے موضوعات پر بھی مغرب کی جامعات میں آئے روز مقالے لکھے جا رہے ہیں حالانکہ محل وقوع کی نسبت سے ہمیں زیادہ قربت ہے اور ان معاملات پر فکری کام پاکستان میں زیادہ ہونا چاہیے تھا۔کیا کبھی آپ نے پڑھا یا سنا کہ ہماری کسی یونیورسٹی میں کوئی ایسا مقاملہ لکھا گیا ہو جس کا اس مرتی مارتی دنیا کے عملی مسائل سے کوئی تعلق ہو اور جس سے کوئی رہنمائی حاصل کی جا سکے؟ یہ جو’’ پی ایچ ڈیاں‘‘ہو رہی ہے ان کی فکری حیثیت کیا ہے؟ کیا محض کاغذات کے انبار لگائے جا رہے ہیں یا ان میں کوئی ایسی معقول بات بھی لکھی اور کہی جا رہی ہے جو عصر حاضر کے چیلنجز کو سمجھنے اور ان سے نبٹنے میں کوئی رہنمائی فرما سکے؟ ہماری اس ساری علمی مشق کا اعتبار کیا ہے؟ کبھی کسی تعلیمی ادارے سے کوئی تحقیق آئی ہو کہ پاکستان میں جمہوری کلچر فروغ نہ پانے کے اسباب کیا ہیں؟ کبھی کسی نے لکھا ہو کہ یہاں مارشل لاز کیوں لگتے رہے؟ پاکستان کا قرضہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ۔کیا کسی تعلیمی ادارے میں کوئی ایسا رہنما مقالہ لکھا گیا جو بتا سکے اس قرض نے ہمیں کہاں لا کھڑا کیا اور اس عذاب سے نجات کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ ہمارے سماج کو پرائیویٹ جہاد کے تصور سے کیا ملا اور اس کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوئے ، ہم نے یہ آپشن کیوں اختیار کیا اور اس کا سماجی معاشی اور نفسیاتی اثرات کیا رہے؟افغان جہاد کے ایام میں کیا درست ہوا اور کیا غلط ہوا؟ کیا ہونا چاہیے تھا اور کیا نہیں ہونا چاہیے تھا؟ انتہا پسندی ، دہشت گردی اور پرائیویٹ جہاد وہ موضوعات ہیں جن پر دنیا بھر میں لکھا جا رہا ہے لیکن ہم اس سب سے براہ راست متاثر ہونے کے باوجود ان موضوعات پر کام نہیں کر رہے۔کبھی آپ نے سوچا کہ کیوں؟ پاکستان کے سماجی ، سیاسی ، تزویراتی ، سفارتی معاملات اور چیلنجز پر کسی تعلیمی ادارے میں کوئی رہنما قسم کا کوئی کام ہوا ہو تو بتا دیجیے۔اگر جواب نفی میں ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ہمارے مبینہ اعلی تعلیمی ادارے کر کیا رہے ہیں۔ان میںذوق اور استعداد نہیں ہے یا مختلف قسم کی پابندیوں نے انہیں فکری طور پر اس قابل ہی نہیں رہنے دیا کہ زندہ موضوعات پر کام کر سکیں ۔ چنانچہ اب جملہ تحقیق یہ ہے کہ ادھر ادھر کے حوالہ جات اکٹھے کر کے احساس کمتری کا مارا ایک مقالہ لکھ دیا جاتا ہے جس میں کچھ معلوم نہیں ہوپاتا کہ محقق کرام کی اپنی رائے کیا ہے۔ پڑھ کر شرم آتی ہے کہ کیا تحقیق اب یہی ہے کہ تیس چالیس مغربی دانشوروں کی رائے اکٹھی کر کے حوالہ جات سے ایک واہیات قسم کی دستاویز تیار کر دی جائے۔جہاں ضروری ہو حوالہ جات دینے چا ہیئں لیکن صاحب تحریر کا کوئی اپنا موقف بھی تو ہو جس کے حق میں کوئی دلیل دی جائے۔ یہاں عالم یہ ہے کہ پہلے صفحے سے ہی احساس کمتری حوالہ جات دینا شروع کر دیتی ہے۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں ایک ان دیکھا خوف ہے۔ مکھی پہ مکھی مارتے چلا جانا اور عافیت اوڑھ کر محض چاپلوسی اور خوشامد کے سہارے ڈگری کا حصول اور نوکری کا تحفظ ہی اہل علم کا نصب العین بن چکا ہے۔موضوعات کے چنائو میں شاید اتنی احتیاط کی جاتی ہے کہ اس کے بعد ایک ہومیوپیتھک قسم کا ایسا مطالعہ وجود میں آتا ہے جو نہ کسی کو خفا کرتا ہے نہ کسی کے کام آتا ہے۔یونیورسٹیوں میں جن موضوعات پر تحقیق ہو رہی ہے( خالص فنی امور کو چھوڑ کر) وہ ایسے موضوعات ہیں کہ فکری عیاشی کے باب میں تو لکھے جا سکتے ہیں اور کسی کی ڈگری کی ضرورت بھی قرار دیے جا سکتے ہیں، لیکن علم کی دنیا میں ان کا کیا اعتبار ہے یہ سوال حل طلب اور پیچیدہ ہے۔ جامعات کے اساتذہ کی اکثریت حریت فکر سے محروم ہے۔ وہ زندہ موضوعات پر بات ہی نہیں کرتے کہ اس سے کہیں کوئی خفا نہ ہو جائے۔ چنانچہ امور خارجہ ہوں ، سیاسیات ہو یا معیشت کی دنیا ، جملہ اہم قومی امور پر صرف کالم نگار اور اینکر پرسن ہی بات کرنے کو رہ گئے ہیں۔ انہی کے نام اب دانشور کی تہمت دھری جاتی ہے۔ آپ نے ان سے جس مسئلے پر رہنمائی لینی ہو بات کر لیجیے ، یہ دنیا جہان کے مسائل پر آپ کی رہنمائی کا حق ادا کر سکتے ہیں۔مستثنیات یقینا موجود ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی موضوع پر اس کا ماہر جس انداز سے بات کرسکتا ہے اہل صحافت نہیں کر سکتیاور ماہرین کی یہاں زباں بندی ہے۔ ماہرین میں بھی اکثریت ایسی ہے جو صرف ڈگریوں کے بوجھ سے ماہرین بنی پھرتی ہے اور جو باقی ہیں ہیں وہ سارا مہینہ بس تنخواہ کے تعاقب میں خاموشی سے وقت گزار دیتے ہیں۔معاشرے کو اگر ہم کسی مثبت سمت لے جانا چاہتے ہیں تو اپنے اہل علم کی یہ جبری خاموشی ختم کرنا ہو گی۔ سرکاری ملازمت کے تقاضوں پر اس حد تک نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ کم از کم معاشرے میں علمی اور فکری مباحث کی شکل میں اختلاف رائے کی آزادی رہے۔ تعلیمی اداروں کو اگر ہم نے جمود کے اس عالم سے نہ نکالا اور قومی بیانیے میں ان اہل علم کی رائے کو شامل نہ کیا تو المیے ہی مقدر رہیں گے۔