الٹی طرف بہائو کے نیّا کئے ہوئے اتریں گے پار ہم ہیں تہیّہ کیے ہوئے ہم جانتے ہیں لیکن ابھی بولتے نہیں کچھ لوگ کیوں ہیں نرم رویہ کیے ہوئے ایک شعر اور کہ اس میں نکتہ معترضہ بھی ہے۔ ’’حیرت ہے ہم جو موت سے ڈرتے ہیں اس قدر اس زندگی کو بھی المیّہ کئے ہوئے‘‘۔ چلیے اب آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف کہ ہمارے صدر پاکستان عارف علوی نے آخر صلح صفائی کی بات کر دی ہے پہلے ایک دلچسپ مگر حقیقی واقعہ انتہائی ضروری ہے۔بچپن کا واقعہ ہے کہ دادی جان بیٹھے روٹی پکا رہے تھے کہ میری چچی یعنی ان کی بہو آن بیٹھی چند لمحوں کے بعد دادی جان اس سے مخاطب ہوئے کچھ بول وٹی بن کے بیٹھی ایں۔ یعنی پتھر بن کر بیٹھی ہوئی ہو چچی جان ہنسنے لگیں دادی جان پھر گویا ویخ میری گل تے ہسدی اے اب تیسری صورت سامنے آئی کہ چچی بولی تو پھر میں کیا کروں آپ چپ بھی نہیں رہنے دیتے دادی جان کہنے لگے اچھا ہن تیری زبان وی چلن لگ پئی ایں یعنی زبان بھی چلانے لگی ہو آخر چچی نے رونا شروع کر دیا دادی جان اور غصے میں آ گئے اور بولے ویکھ ہن مینوں رو رو کے دسدی پئی اے جیویں میں کوئی ظلم کر دتا اے۔ تو صاحبو بتانے کا مقصد ہے کہ آپ اعتراض کرنے پر آئیں تو آپ کے پاس ہزار جواز کمپرومائز کرنے پر آئیں تو کسی بات کی ضرورت نہیں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے کی بات ہے کہ میں ناشتے کے لئے دہی لایا بیگم فرمانے لگیں بہت ہی کھٹا ہے۔میں نے کہا وہ دہی والا بہت اچھا دہی جماتا ہے بس آج ذرا کھٹا ہو گیا ’’محترمہ نے میرے لفظ’’ ذرا‘‘ کی گوشمالی کر دی کہ آپ میرے اعتراض پر اعتراض جما رہے ہیں یہ مردوں کی عادت ہے۔ دہی بہت کھٹا‘ میں نے مزید کھٹاس سے بچنے کے لئے کان لپیٹ لئے کہنے کا مطلب یہ ہے تھوڑی سی برداشت اور وضعداری ضروری ہے۔آپ کوئی جملہ خان صاحب کے اپنے ہی خطاب کا اگر کوٹ کر دیں تو ہمارے دوست اس کو بھی ن لیگ کے حق میں سمجھتے ہیں ہم اپنی اصلاح میں کی گئی بات بھی نہیں سنتے آپ دیکھنے نہیں کہ عارف علوی کو کہنا پڑا کہ میں انہیں کہتا رہا کہ اپنے اکائونٹس کھلوا لیں مگر کسی نے مان کر نہ دی۔ صدر صاحب اب کوشش تو کر رہے ہیں کہ سیاسی سطح پر جو خلیج بہت بڑھ گئی ہے اسے افہام و تفہیم سے ختم کر کے مشترکہ مشاورت سے انتخابات کی طرف جایا جائے۔عارف علوی صاحب ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ : لڑتے لڑتے ہو گئی گم ایک کی چونچ اور ایک دم ویسے چلتے چلتے میں یہ بتاتا چلوں کہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔آج کے بچے بہت ذہین ہے کہ ہم انہیں سکھاتے ہیں کہ بیٹا نام نہ بگاڑو نک نیم بھی نہ لو۔نام ہی تو شخصیت ہوتے ہیں ہمیں اچھے نام رکھنے کے لئے کہا گیا ۔ہم جس انداز میں زبان اور اخلاق بگاڑ رہے ہیں خدا کی پناہ ذومعنی باتیں۔ایک لمحے کے لئے اتنا تو سوچیں کہ ہماری مائیں‘ بہنیں ہمارے بچے ہمارے مخاطب ہیں یا کم از کم ہمارے سامع ہیں۔ دوبارہ اپنی بات پر آتا ہوں کہ پیچ اپ کروانے کا عمل ملک و ملت کے لئے خوش آئند ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ لوگ یہ بھی تو کہیں گے کہ اب تو یہ ایمنسٹی کی باتیں تو گویا این آر او کے مترادف ہے ہر پہلو کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنا ہو گا۔ وگرنہ وہی جو داغ نے کہا تھا: تلخی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی صدر مملکت نے درست کہا کہ فوج کو متنازع نہیں بنانا چاہیے۔ اس سے پہلے کہا جاتا تھا کہ فوج کو متنازع نہیں بننا چاہیے۔ وقت کے ساتھ شاید بیانیے بدل رہے ہیں۔ فوج پاکستان کی بقا کے لئے یکجان ہے فوج ہمارا آخری سرمایہ ہے صوفی صاحب کا شعر ہی یاد آ رہا ہے: ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لادوا ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو چلیے چلتے چلتے ایک خوبصورت سا تذکرہ شرمیلا فاروقی کا ہو جائے کہ انہوں نے دل دل پاکستان گایا تو وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ظاہرہے وطن کا ذکر ہے تو لوگو دل تھام لیتے ہوں گے ہمیں تو جنید جمشید یاد آئے کہ ان کی پہچان اور یاد اسی دل دل پاکستان سے ان کے دلوں میں جاں گزیں ہے مگر جو کم کم کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس کے شاعر کا، جناب نثار ناسک کا ہی تو یہ تخیل ہے۔ ایسی زمیں اور آسمان ان کے سوا جاناں کہاں بڑھتی رہے یہ روشنی دل دل پاکستان جان جان پاکستان یہ ترانہ غالباً 1987ء میں لکھا گیا اور گایا گیا اسے دوسرا قومی ترانہ بھی کہتے ہیں مجھے پی ٹی وی یاد آ گیا کہ میں ایک جگہ بیٹھا تھا جنید ایک لمحے کے لئے آیا کچھ پوچھا اور پلٹ گیا مگر کسی کا کہا ہوا ایک فقرہ حافظے سے چپک گیا۔یہ کیا شخص ہے جہاں آتا ہے ایک خوشی چھوڑ جاتا ہے پھر وہ بدل گیا یا اسے کسی کی نظر التفات نے بدل دیا وہ اور دلوںمیں جا بسا خوبصورت بہت تھی یہ دنیا میں نے دنیا کو اس کے نام کیا۔یونہی دل میں آیا کہ اس کے لئے دعا کروں کہ ویسا ہی عشق مجھے ہو جائے کہ اس تعریف پر پورا اتروں تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک محبوب ترین چیز خرچ نہ کر دو ایک اور باکمال نغمہ مجھے یاد آیا سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے یہ نغمہ مسرور انور صاحب کا لکھا ہوا ہے وہ پل بھی ذھن میں ہے کہ جب میں انہیں گھر ڈراپ کرنے گیا تو دیکھا ان کے گھر کے باہر نیم پلیٹ پر لکھا ہوا تھا سوہنی دھرتی قدم قدم آباد۔گویا یہ نغمہ بھی ان کی پہچان بن گیا تھا۔ قتیل شفائی اسی بات پر زور دیا کرتے تھے کہ تخلیق کار کا نام اولین طور پر آنا چاہیے تبھی تو کسی نے فیض صاحب سے کہا تھا نورجہاں والی نظم سنا دیں۔فیض صاحب نے ایک دفعہ خود بھی کہا تھا کہ یہ نظم اب نورجہاں ہی سے سنو، مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ۔چلیے آخر میں اپنے محبوب شاعر منیر نیازی کے نغمے کے بول کے ساتھ اجازت: پاکستان کے سارے شہرو زندہ رہو پائندہ رہو روشنیوں رنگوں کی لہرو زندہ رہو پائندہ رہو