قومی احتساب بیورو نے جعلی اکائونٹس کیس میں 10 ارب 66 کروڑ روپے مالیت کی 226 ایکڑاراضی پاکستان سٹیل ملز کو واپس دلا دی۔ نیب نے یہ زمین سات ملزموں سے بذریعہ پلی بارگین بازیاب کرائی اور ملزموں کا ریکارڈ احتساب عدالت میں جمع کرا دیا گیا۔ جبکہ زمینوں کی الاٹمنٹ کیس میں ایک ملزم نے 42 کروڑ روپے نقد بھی واپس کئے۔ احتساب بیورو کی اس ریکوری مہم کو دیکھا جائے تو یہ بلاشبہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ اگرچہ نیب کے پلی بارگین معاملات کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ’’بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘ کے مصداق کچھ نہ ہونے سے کچھ نہ کچھ ہونا بہرحال بہتر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر نیب اس نہج پر تواتر سے کام کرتا رہا تو اس سے بھی قومی خزانے کے خسارے کا بڑی حد تک ازالہ کیا جا سکتا ہے لیکن اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملزموں کو یہ اراضی الاٹ کس نے کی؟ اصل مجرم تو وہ ہے جس نے یہ سرکاری اراضی غیرقانونی طور پر ملزموں کو الاٹ کی۔ لہٰذا ایسے چہروں کو بھی سامنے لایا جانا چاہئے کیونکہ اصل برائی کی جڑ معاشرے کے یہی کردار ہیں جنہوں نے قومی اداروں،قومی اثاثوں اور قومی خزانے کو برباد کیا ہے۔ انہیں چھوڑ دینا آگ بجھا کر چنگاریوں کو باقی رکھنے والی بات ہے۔ لہٰذا ایسے ملزموں کے خلاف ان کے ماضی کے کرتوتوں کے مطابق مقدمات قائم کرکے انہیں سزا دی جانی چاہئے تاکہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔