قیامت کی گھڑی ہے‘ کبھی سوچا تھا کہ تیل ٹکے سیر بکے گا۔ہو سکتا ہے تیل سے بات سمجھ نہ آئے‘ کہنا یہ ہے کہ پٹرولیم کی مصنوعات یوں بے وقعت ہوں گی کہ کوئی خریدار نہیں ملے گا۔ منتیں اور خوشامدیں کرنا پڑیں گے کہ لے لو‘ مفت ہی لے لو۔ کوئی مفت کا خریدار ہی نہیں ملے گا۔ اچھا تو ساتھ ڈالر بھی لے لو‘ مگر تیل یہاں سے اٹھا لو یہ طلسم ہوش ربا کا جادو نہیں‘ آج کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ تیل کوئی معمولی شے نہیں اس نے سونے کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔ وہ اس طرح کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جیتنے والے ملکوں کے اتفاق رائے سے طے ہوا تھا کہ بین الاقوامی خریداری میں بنیادی کرنسی ڈالر ہو گی۔ کسی ملک کو اپنی کرنسی کے استحکام کے لئے سونا رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آخر یہ غیر پیداواری ڈھیر کاہے کو خزانے میں رکھے جائیں۔ اس کے بجائے بنیادی کرنسی ڈالر مان لی جائے اور ہر ملک اپنے اپنے ملکوں کی کرنسیوں کا تعین ڈالر سے کرے۔ امریکہ چونکہ ایک ذمہ دار ملک ہے‘ اس لئے وہ اپنی کرنسی کے استحکام کے لئے اس کی پشت پناہی سونے سے کرے گا۔ کئی سال یہ نظام چلتا رہا۔ اچانک ساتویں عشرے کے آغاز میں امریکہ نے اعلان کیا کہ ہمیں سونا وونا رکھنے کی ضرورت نہیں ہم سپر پارو ہیں اور ہماری کرنسی ڈالر خود ایک ضمانت ہے‘ ایسے ہی جیسے سونا‘ چنانچہ دنیا ڈالر ہی کو اپنی کرنسیوں کے لئے ضمانت سمجھے۔ کہا گیا جنگ عظیم کے بعد ہونے والا معاہدہ ٹوٹ گیا۔ وہ معاہدہ جسے برٹن ووڈ کہا جاتا تھا۔ مگر جلد ہی اندازہ ہوا کہ سرمایہ دارانہ نظام نے خود کو بچا لیا ہے۔ دنیا نے ڈالر کی بالادستی تسلیم کر لی ہے۔ اس میں ایک نکتہ یہ نکال لیا گیا کہ دنیا میں جہاں بھی پٹرولیم مصنوعات کی خرید و فروخت ہو گی‘ وہ ڈالر میں ہو گی۔ یہ شرط اس وقت طے ہوئی جب بیت المقدس کے سانحے پر شاہ فیصل نے تیل کے ہتھیار کو استعمال کر کے دنیا کو چونکا دیا تھا۔ اس وقت تیل پر پابندی کا مطلب گویا عالمی معیشت کو لاک ڈائون کرنا تھا۔ اب تو امریکہ کہتا ہے ہمیں اس کی ضرورت نہیں رہی۔ ہم تیل میں خود کفیل ہیں۔ تاہم اس وقت امریکہ نے یہ طے کروا لیا کہ سعودی عرب اور اوپیک ممالک تیل کو ڈالر میں فروخت کریں گے۔ پیٹرو ڈالر کا لفظ اس وقت مستعمل ہونا شروع ہوا تھا۔ اس دن سے تیل سونے کا متبادل ہے اور ڈالر دنیا کا بادشاہ ہے۔ یہ بھی عجب بات ہے کہ امریکہ کی یہ کرنسی امریکہ کی حکومت خود نہیں چھاپتی جبکہ اسے فیڈرل ریزرو نام کا ایک یہودی ادارہ چھاپتا ہے اور حکومت کو سود پر دیتا ہے۔ امریکہ کی تاریخ میں دو بار حکومت نے اسے اپنی تحویل میں لینا چاہا‘ مگر ایسا سوچنے والے دو صدر قتل کر دیے گئے۔ یہودی نے بڑی مضبوطی سے فیڈرل ریزرو پر اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں ہم اسے امریکہ کا سٹیٹ بنک سمجھتے ہیں‘ مگر اس کی حیثیت ایک نجی ادارے کی ہے جو دنیا کی معیشت کو کنٹرول کرتا ہے اور یہ نجی ادارہ یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ سو تیل اتنی بنیادی اور قیمتی چیز ہے کہ دنیا کی معیشت کی بنیاد اس پر ہے۔ ویسے بھی صنعتوں کا پہیہ چلانے کے لئے جس انرجی کی ضرورت ہے وہ سب تیل کی مرہون منت ہے۔ سرمایہ دارانہ دنیا کو فکر پڑی ہوئی ہے کہ چین سستا تیل خرید کر ذخیرہ کرتا جا رہا ہے۔ کم از کم ٹرمپ نے یہ ہی خواہش ظاہر کی کہ وہ امریکہ کی خاطر ایسا کرنا چاہتا ہے‘ مگر کچھ کر نہیں پا رہا‘ اس کے پیچھے تیل پیدا کرنے والی دو طاقتوں کی بھی جنگ ہے۔ سعودی عرب میں جس طرح اقتدار کی جنگ ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے آل سعود کے بڑے بڑے لوگوں کو اچانک قید کر رکھا ہے۔ دنیا میں افواہ پھیل گئی تھی کہ بغاوت ہو گئی ہے جب خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں کورونا کی وجہ سے پابندی لگی تو یہ سمجھا گیا کہ یہ بغاوت کو کچلنے کا ایک طریقہ ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان جب سے آئے ہیں ایک خاص ترقی پسندانہ جارحانہ حکمت عملی رکھتے ہیں۔ ان کے جارحانہ انداز نے گزشتہ ایک سال سے انہیں ایک طرح سے منظر سے ہٹ جانے پر مجبور کیا تھا جسے لوگ روپوش ہونا بھی کہتے تھے ہم نے اقتدار کی جنگ میں اپنے پرایوں کی پروا نہ کرنے کا جو حال تاریخ میں پڑھا ہے‘ لگتا ہے اس جدید دور میں یہی ہو رہا ہے۔ بھائی ہو یا چچا سب گرفت میں ہیں۔ بیرونی محاذ پر اسی جنگ نے روس کے ساتھ تصادم کی صورت حال اختیار کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ روس کا نقصان تو ہو گا مگر اس کی معیشت کا کلی انحصار تیل پر نہیں ہے جب کہ سعودی معیشت کا بڑا حصہ تیل کی پیداوار ہے۔ شہزادہ محمد نے اپنے 2030ء کے وژن میں یہ منصوبہ بنایا ہے کہ سعودی عرب کو صنعتی لحاظ سے اتنی ترقی دے دی جائے کہ اس کا زیادہ انحصار تیل کی پیداوار پر نہ رہے۔ مملکت نے پہلی بار لبرل پالیسی اپنائی ہے۔ عورتیں گاڑیاں چلا سکتی ہیں‘ اکیلے محرم کے بغیر سفر کر سکی ہیں‘ سینما گھر سعودی سرزمین پر کھلنے لگے ہیں۔ یہ سب باتیں گویا ترقی کی علامت ہیں تاہم اس وقت ہر کوئی مخمصے میں ہے۔ کورونا نے دنیا کے پانچ ممالک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں کہ دنیا کی واحد سپر پاور کے سامنے اس کے اپنے ہم وطنوں کی پچاس ہزار لاشیں پڑی ہوتی ہیں اس سے نصف اٹلی میں‘ کچھ کم سپین میں پھر فرانس اور برطانیہ میں غضب خدا کا اس ان دیکھنے دشمن کے ہاتھوں پوری مغربی تہذیب بے بس ہو گئی ہے۔ چین میں آغاز ہوا مگر اس کی اتنی بڑی آبادی اور معیشت پر اس کا اثنا اثر نہیں پڑا جتنا مغربی دنیا کے ان پانچ ممالک پر پڑا ہے۔ انسانی جانوں کا یہ حال ہے اور معیشت کا اندازہ اس سے لگا لیجیے کہ تیل ٹکے سیر بک رہا ہے جو ان کی معیشت اور دولت کی جان ہے۔ دنیا ہل کر رہ گئی ہے کوئی نہیں جانتا کہ آنے والے دنوں کی کوکھ سے کیا نمودار ہونے والا ہے۔ اب تو عالمی ادارے کوئی پیش گوئی بھی کرتے ہیں تو یہ بتاتے ہیں کہ شاید پانچ برس بعد ہم نارمل ہو سکیں۔ اس پر تو سب کا اتفاق ہے اس سال کے آخر تک شاید ہم معمول کی سماجی زندگی کے قریب آئیں ۔ بل گیٹس کہتا ہے جب تک ویکسین نہیں بنتی‘دنیا میں زندگی کا معمول پر آنا ممکن نہیں۔ سماجی دوری کا مطلب ہے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ صرف عبادات ہی نہیں کاروبار بھی نہیں۔ کھیل ‘ ثقافت ہر شے معطل۔ امریکی تیل کی بے قدری کی سزا صرف امریکہ کو نہیں مل رہی ‘ پوری دنیا کو مل رہی ہے۔ یہ کون بول رہا تھا‘ خدا کے لہجے میں۔ امریکیوں میں کبرحد سے بڑھ گیا تھا۔ خدا کو یہ چیز بالکل پسند نہیں۔ وہ عالمی سطح پر یوں بات کرتے تھے جیسے نظام عالم کو وہی چلا رہے ہیں۔سنبھالو اپنی طاقت کو۔تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔ عقل ٹھکانے اب بھی نہیں آئی تو جلد آ جائے گی۔