اسلام آباد،لاہور (خبر نگار، نامہ نگار خصوصی،92 نیوز رپورٹ، نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ نے قراردیا ہے کہ درخواست ضمانت منظور ہو جائے تو بھی میاں نواز شریف بیرون ملک نہیں جا سکتے جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر جواب گزارو ں نے جو بھی مواد دینا ہو وہ عدالت کو فراہم کر دیں اسکے بعد کیس کی سماعت کو مزید ملتوی نہیں کیا جائیگا،26مارچ کو کیس نمٹادیاجائیگا۔ گزشتہ روز چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ا لعزیزیہ ریفرنس میں شریف کی سزا معطل کرنے کیلئے دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے کہ جن کا ٹرائل ہورہا ہے وہ بھی واپس نہیں آئے ، سزا یافتہ کیسے واپس آئے گا؟،کیا کوئی عدالتی مثال ہے کہ سزا یافتہ شخص کو بیرون ملک جانے دیا جائے ؟،باہر جانیوالے کبھی واپس نہیں آتے ۔نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ درخواست گزار کو دل کے پیچیدہ طبی مسائل کا سامنا ہے ۔ نوازشریف کاخالی پیٹ شوگرلیول مسلسل 154 ہے جبکہ فیٹی لیور کا مسئلہ بھی ہے ،ان کو سات سٹنٹس ڈالے گئے ہیں جبکہ چار دفعہ دل کا دورہ پڑا اور دو مرتبہ اوپن ہارٹ سرجری ہوئی ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ انکی صحت جیل جانے کے بعد بگڑی ہے یا پہلے بھی ان مسائل کا سامنا تھا ،سب جانتے ہیں کہ وہ لندن میں زیر علاج رہے لیکن اس کیساتھ سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں،جلسے کئے ، ریلیاں نکالیں اور انتخابی مہم چلائی،چھاتی کادردادویات سے ٹھیک ہوتا رہا،اب مسئلہ علاج کا ہے ، دل کا علاج جیل میں نہیں ہوسکتا تو علاج کیلئے ہسپتال منتقل کیا جا سکتا ہے ،نوازشریف کی نئی اورپرانی میڈیکل رپورٹس کاجائزہ لیں گے ، رپورٹ کے مطابق گردے میں پتھری ،ہیپاٹائٹس،شوگر،دل کاعارضہ ہے ، کیانوازشریف کویہ چاروں پرانی بیماریاں ہیں؟۔ وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست ہائیکورٹ نے مسترد کی۔نواز شریف کیلئے 5 مختلف میڈیکل بورڈ بنائے گئے ، 15 جنوری کو نواز شریف نے بازو اور سینے میں درد کی شکایت کی۔ چیف جسٹس نے کہاعدالت درد سے پہلے اور بعد کی رپورٹس کا موازنہ کریگی۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ29 جولائی 2018 پمز کی رپورٹ ریکارڈ کا حصہ ہے ۔جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ لندن میں علاج کی ہسٹری نواز شریف نے فراہم نہیں کی۔خواجہ حارث نے کہا کہ 25 جنوری کو ڈاکٹر لارنس نے نواز شریف کی میڈیکل ہسٹری فراہم کی۔جسٹس یحییٰ نے سوال کیاکہ میڈیکل بورڈ کو لندن کے علاج کی تفصیلی رپورٹ کیوں نہیں دی گئی؟۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کہ پہلی میڈیکل رپورٹ میں کیا سامنے آیا؟ پہلی رپورٹ میں نواز شریف کی عمر 65 سال لکھی گئی اوردوسری رپورٹ میں عمر69 سال لکھ دی گئی، چند دنوں میں ہی عمر چار سال بڑھا دی گئی۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ دوسری رپورٹ میں کہا گیا نواز شریف ہائیپر ٹینشن کے مریض رہے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دوسری رپورٹ میں نواز شریف کا بلڈ پریشر کافی ہائی تھا۔خواجہ حارث نے کہاکہ دوائی کھانے کے بعد نواز شریف کا بلڈ پریشر نارمل ہوا۔چیف جسٹس نے کہاکہ نواز شریف کی عاضہ قلب، گردے ، شوگر اور ہائیپر ٹینشن کی ہسٹری ہے ،میڈیکل رپورٹس دیکھنے کا مقصد نواز شریف کی صحت کا جائزہ لینا ہے ،دیکھنا ہے کہ نواز شریف کی صحت بگڑ رہی ہے یا نہیں۔خواجہ حارث نے کہاکہ تیسرا میڈیکل بورڈ کارڈیالوجسٹ پر ہی مشتمل تھا، بورڈ نے رپورٹ میں خون کی روانگی ٹھیک نہ ہونے کا ذکر کیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بورڈ نے کسی شریان کے بند ہونے کا ذکر رپورٹ میں نہیں کیا۔خواجہ حارث نے کہاکہ تیسرے بورڈ نے سینئر ڈاکٹرز کا بڑا بورڈ بنانے کی سفارش کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مریض اہم ہو تو ڈاکٹرز ایک جگہ دس دس ٹیسٹ کراتے ہیں،شاید اسلئے ڈاکٹرز نے بڑا بورڈ بنانے کا کہہ دیا، اہم شخصیات میں زیادہ احتیاط سے کام لیا جانا چاہئے ۔ خواجہ حارث نے کہاکہ ڈاکٹرز کو نواز شریف کے علاج کے دوران انکی ماضی کی میڈیکل ہسٹری کو بھی دیکھنا ضروری ہے ۔ چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے کہا کہ تیسری میڈیکل رپورٹ کے اوپر دیکھیں کیا لکھا ہے ؟اوپر لکھا ہے اہم شخصیت اور نیب کیس میں سزا یافتہ، ہم ڈاکٹرز نہیں صرف نواز شریف کی صحت کی تصویر ذہن میں لا رہے ہیں۔خواجہ حارث نے جواب دیا کہ رپورٹ کے مطابق نواز شریف کے دل کی دھڑکن نارمل نہیں،انکی گردن سے دماغ تک شریان بھی متاثر ہوئی ہے ،میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کیلئے 24گھنٹے ڈاکٹرز کی موجودگی کی سفارش کی ہے ، ایسے ہسپتال منتقل کرنے کی سفارش کی جہاں تمام سہولیات ہوں۔ نواز شریف کو 2011 میں دل کا شدید عارضہ لاحق ہوا ۔ ہر رپورٹ میں کہا گیا کہ نواز شریف کا علاج جیل میں ممکن نہیں، تمام رپورٹس میں نواز شریف کو جیل سے باہر منتقل کرنیکا کہا گیا، ایک رپورٹ میں پہلے گردے کے علاج کی سفارش کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ دوران قید اتنی بار نواز شریف ہسپتال گئے کیا صرف ٹیسٹ ہوتے ،نواز شریف کو دل کے علاج کی ضرورت نہیں تھی۔ خواجہ حارث نے کہاکہ نواز شریف کی شریانیں سکڑ گئی ہیں، بلڈ سپلائی بری طرح متاثر ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اب مسئلہ علاج کا ہے ، دل کے علاج کیلئے جیل سے ہسپتال منتقل کیا جا سکتا ہے ۔خواجہ حارث نے کہاکہ انصاف کے تقاضوں کیلئے نواز شریف کو دباؤ سے نکالا جائے ،انکی سزا معطل کر کے علاج کی اجازت دی جائے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالتی اجازت کے بعد باہر جانے کے حوالے سے تجربہ کچھ اچھا نہیں رہا یہاں تک کہ بغیر سزا ہوئے جو لوگ باہر گئے اورجن کا ٹرائل ہو رہا ہے وہ بھی واپس نہیں آئے ۔ خواجہ حارث نے کہاکہ نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ہے ۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا کوئی عدالتی فیصلے کی ایسی نظیر ہے جس میں سزا یافتہ شخص کو بیرون ملک جانے دیا گیا ہو درخواست منظور ہو جائے تو بھی نواز شریف بیرون ملک نہیں جا سکتے ،بے شک نواز شریف سزا ہونے کے بعد واپس آئے ۔جسٹس یحییٰ نے سوال کیاکہ کیا حکومت نے مرضی کے ڈاکٹرز سے علاج کرانے سے انکار کیا؟خواجہ حارث نے کہاکہ جن ڈاکٹرز نے معائنہ کیا نواز شریف انہیں نہیں جانتے ،نواز شریف کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے ،وہ کہیں نہیں بھاگ رہے ۔دریں اثنا لائرز فائونڈیشن فار جسٹس کے سربراہ ایڈووکیٹ اے کے ڈوگر نے نواز شریف کی سزا معطلی کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی جس میں وفاقی حکومت اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے ۔ درخواست میں کہاگیا ہے کہ نیب آرڈینینس غیر آئینی ہے ، لہٰذا نیب آرڈینینس کے تحت ملزموں کی سزائیں اور ریفرینسز بھی غیر قانونی ہیں۔لہٰذا نواز شریف اور دیگر ملزموں کی سزائیں معطل کی جائیں۔