اہل وطن کو کورونا کے ساتھ ساتھ اُس کے خوف سے نجات کی ضرورت ہے کہ سب اندازے غلط ہو گئے ،کورونا وائرس کی تباہی کا کسی کو علم نہ تھا ،دنیا توقع کر رہی تھی کہ اس سال نومبر میں ہونے والے امریکی الیکشن میں ٹرمپ ہار جائیں گے اور ترقی پذیر ممالک سکھ کا سانس لیں گے ۔ اب اگر کورونا زیادہ دیر چلتا ہے تو شاید امریکی الیکشن نہ ہوں اور دنیا خصوصاً غریب مسلمان ملکوں کو ٹرمپ کے عذاب سہنے پڑیں ۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے غلط فیصلوں نے پوری دنیا کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے ۔ اس کے حماقت خیز مذہبی انتہا پسندی سے پاکستان متاثر نہ ہو ،یہ ممکن ہی نہیں ۔ افغانستان کا عذاب امریکہ کے جانے کے بعد شدت اختیار کرے گا کہ ان کو پیسہ چاہئے ، امریکا ، روس ، برطانیہ یا جس سے ملے ۔ ان کے جانے کے بعد نیا سرمایہ دار چین سرمایہ کاری کر سکتاہے، ایران اور سعود ی عرب کا مذہب سے بڑھ کر فرقوں کی طرف جھکاؤ عالم اسلام کیلئے خصوصاً پاکستان کیلئے نیک شگون نہیں۔ان حالات میں پاکستان کو آنے والے خطرات کو سامنے رکھ کر پالیسیاں ترتیب دینا ہونگی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کورونا وائرس کے خوف سے دنیا میں ہونیوالی معاشی تباہی مستقل میں نئے خطرات کا باعث ہو سکتی ہے، ترقی یافتہ ممالک اپنی معیشت کی بحالی کیلئے ترقی پذیر ممالک کے درمیان نئے تنازعات پیدا کروائیں گے ، یہ تنازعات جنگی ماحول پیدا کریں گے اور ترقی پذیر ممالک اپنا سودا ’’ اسلحہ ‘‘ کی شکل میں فروخت کر کے خود کو اپنے پاؤں پر کھڑا کریں گے اور غریب ممالک کو قبر میں بھیجنے کا سامنا پیدا کریں گے۔ ہیروشیما اور ناگاسا پر ایٹمی بمباری کے 75 سال بعد دنیا کو نئے خطرے کا سامنا ہے، پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اپنی معیشت کو ہر صورت بچائیں ۔اس کا ایک ہی حل ہے کہ لوگوں کو گھروں کی قید سے نجات دی جائے۔ کورونا کا عذاب پوری دنیا میں ہے یورپ میں کورونا سے اموات زیادہ ہو رہی ہیں، اس کی ایک وجہ قوت مدافعت کی کمی بھی ہے، یورپ کا معاشرہ برائیلر ٹائپ ہے۔ اُن میں نہ طاقت ہے نہ قوتِ مدافعت، اُن کا ایمان بھی کمزور ہے، وہ ہلکا سا بخار بھی برداشت نہیں کر سکتے، ہمارے ہاں تو غربت نے انسان میں اتنی قوت مدافعت پیدا کر دی ہے کہ 202 بخار والا غریب مزدوری کر رہا ہوتا ہے۔ سرائیکی کہاوت ہے کہ ’’تقدیر بہادر تے موت بزدل دے قریب ہوندی اے‘‘ ہمیں قوم کو بزدلی سے بچانا ہے۔ کورونا کے نام پر جبری بندشیں انسانی آزادی کے خلاف ہیں۔ مکمل لاک ڈائون نہیں ہونا چاہئے۔ اس میں نرمی ہونی چاہئے۔ لوگوں کو معاشی سرگرمیاں محدود پیمانے پر ہی سہی شروع کرنے کی اجازت دی جائے، قبل اس کے کہ بھوکے اور معاشی طور پر تباہ حال لوگ سڑکوں پر آجائیں اور زبردستی دکانیں کھول لیں۔ میڈیا پر لوگوں کو ہر وقت بزدل بنایا جا رہا ہے۔ اس طریقہ کار کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ’’ہزار خوف ہو لیکن زبان ہو دل کی رفیق، یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق‘‘۔ اگر ہم تاریخ کے قبرستانوں پر نظرڈالیں تو بہت سی قوموں اور تہذیبوں کے ایسے مزار ملیں گے جو محض خوف کے باعث صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ قوموں میں خوف اور بزدلی اور مذاحمت سے گریز جیسی خامیاں ہمیشہ تباہی کا باعث بنتی رہی ہیں۔ جس قوم میں بہادری نہ ہو سخاوت نہ ہو، عہدوپیمان کی پاسداری نہ ہو، عدل و انصاف اور ہمدردی و غمگساری نہ ہو، اُس کا مقدر صرف تباہی ہوتا ہے۔ آپ زیادہ دور نہ جائیں ہندوستان کی تاریخ پڑھ لیں کہ جب بادشاہ اور شہزادے عشایوں میں غرق ہو گئے اور وہ موت سے ڈرنے لگے تو انگریز نے ہزاروں میل دور ہونے کے باوجود ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ ان تمام گزارشات کا مقصد کورونا کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کی مخالفت نہیں ہے لیکن قوم میں مایوسی اور خوف کا پرچار کورونا سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ کورونا عذاب سے غریب طبقہ سخت پریشان ہے، صاحب حیثیت سیاستدان غریبوں کی مدد کرنے کی بجائے سیاست کر رہے ہیں۔ ملتان میں ایک بینر آویزاں ہوا جس میں لکھا گیا کہ ’’وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور ایم پی اے جاوید اختر انصاری ہمارے ہاں تشریف لائیں کہ وہ راشن کے مستحق ہیں‘‘۔ اس کے بعد مخدوم شاہ محمود قریشی اُن کے صاحبزادے زین قریشی اور جاوید اختر انصاری کی طرف سے غریبوں کیلئے راشن کا انتظام ہوا۔ اسی طرح کا بینر ایم این اے ملک عامر ڈوگر اور ایم پی اے ندیم قریشی کے بارے میں بھی آویزاں ہوا تو مستحقین کیلئے راشن کا انتظام ہوا۔ تیسرا واقعہ یہ ہوا کہ جہانگیر ترین گروپ کے شیخ سلمان نعیم جن کو مخدوم شاہ محمود قریشی کے مقابلے میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑایا گیا تھا ،نے اپنی سیاست چمکانے کیلئے غریبوں کے گھروں میں راشن بھجوایا اور ساتھ ہی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے یہ افواہ بھی اڑوا دی گئی کہ وہ کورونا وائرس میں مبتلا ہیں مگر کورونا والی بات غلط ثابت ہوئی اب اُن پر بہت اعتراض ہو رہا ہے اس مشکل وقت میں جھوٹ اور فریب پر مشتمل سیاست کی نہیں حقیقی خدمت کی ضرورت ہے۔ کورونا کی وبا ء اس لیے منفرد نوعیت کی ہے کہ اس نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ امریکہ اور چین جیسی سپر پاور سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ آگے چل کر یہی سپر پاورز ترقی پذیر ممالک کا خون چوس کر اپنے نقصانات پورے کرنے کی کوشش کریں گی۔ جب ہم پاکستان کی 73 سالہ تاریخ پر غور کرتے ہیں تو پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان بڑی طاقتوں خصوصاً امریکہ کی حاشیہ برداری سے ہوا۔نائن الیون کے بعد امریکہ نے جس طرح طاقت کے بل بوتے پر مشرف سے ہر بات منوائی اُس کاعذاب پاکستانی قوم آج بھی بھگت رہی ہے۔ اہل قلم نے ہمیشہ خطرات سے آگاہ کیا مگر حکمرانوں نے کم ہی توجہ دی۔ مشرف دور ہی میں سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی نے لکھا تھا کہ امریکہ نمبردار ہے اور پاکستانی حکمران اُس کے چوکیدار بنے ہوئے ہیں۔ شاکر شجاع آبادی کا شعر دیکھئے کہ وہ حقیقت کے کس قدر قریب ہے۔ اساڈا ملک موضع ہے تے نمبردار امریکہ ضمیراں دی اُگاڑی کر تے چوکیدار ڈے آندے