آئیے آج ہم آپ کی ملاقات ایک ابھرتے ہوئے سیاسی رہنما سے کرواتے ہیں۔ ان کا اسم گرامی سردار روشن محمود ہیرو ہے۔ نام سے دھوکا مت کھائیے گا۔ یہ نہ تو سردار ہیں نہ ہیرو۔ بس ان کا نام سردار روشن محمود ہیرو ہے۔ ان کا تعلق جوہر ٹائون لاہور سے ہے۔ ان کا تعلق ماضی میں کسی سیاسی پارٹی سے رہا ہو تو ہم کہہ نہیں سکتے۔ البتہ اس وقت ان کا تعلق صرف ان کی خانہ ساز سیاسی پارٹی سے ہے جس کا نام انہوں نے آل پاکستان لوٹا فرنٹ رکھا ہے۔ اسے کہتے ہیں ایجاد بندہ اگرچہ گندہ۔ اس پارٹی کے سرپرست اعلیٰ جوہر ٹائون کے ایک معروف قانون دان ہیں۔ پارٹی کے باقی سب عہدے فی الحال سردار روشن محمود کے پاس بطور امانت محفوظ ہیں۔ بہت سے عہدے پاس رکھنے کا آئیڈیا انہوں نے میاں برادران سے لیا ہے جونہی حقدار سامنے آئیں گے سوائے چیئرمین شپ کے باقی سب عہدے وہ تقسیم کردیں گے۔ سردار صاحب نے قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 127 سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ابھی تک کسی اخبار نویس کو ان کا انٹرویو لینے کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ ہمیں خوشی ہے کہ یہ سعادت ہمیں نصیب ہورہی ہے۔ آئیے ان کے خیالات عالیہ سے مستفید ہوتے ہیں۔ سردار صاحب! آپ نے اپنی پارٹی کا نام آل پاکستان لوٹا فرنٹ کیوں رکھا ہے؟ سچ کا بولا بالا کرنے کے لیے۔ انہوں نے جواب دیا۔ جی؟… سچ کا بول بالا کرنے کے لیے؟ میں سمجھا نہیں۔ اخبار نویس ذرا مشکل ہی سے بات سمجھا کرتے ہیں۔ آپ پہلے میرے ایک سوال کا جواب دیں۔ آج کل سب سے زیادہ پاپولرازم کون سا ہے؟ میرا مطلب ہے پاکستان میں۔ سچ پچھیں تو ہمارے ہاں لوٹا ازم سب سے زیادہ پاپولر ہے۔ اللہ آپ کا بھلا کرے۔ اب آپ یہ بتائیں کہ ہمارے ہاں لوٹوں کی کمی ہے کیا؟ بالکل نہیں۔ ہر قسم کے لوٹے انسانی بھی اور غیر انسانی بھی‘ ہمارے ہاں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ بالخصوص سیاسی پارٹیوں میں سب سے مقبول برتن یہی لوٹا ہے۔ لوٹوں کو ووٹ دینے والوں کی کمی ہے کیا؟ بالکل بھی نہیں۔ جتنے لوٹے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں‘ اتنے تو کمہار کی دکان پر بھی نہیں ہوتے۔ ہم نے جواب دیا۔ تو گویا آپ مانتے ہیں کہ یہ لوٹوں کا دور ہے۔ عوام بھی لوٹوں کو ووٹ دیتے ہیں لیکن لوٹوں میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ وہ سرعام اپنا لوٹا ہونا تسلیم کرلیں۔ وہ خود کو لوٹا نہیں بلکہ عوام کا خادم کہتے ہیں۔ یعنی جھوٹ بولتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوٹے سچ بولیں۔ چنانچہ سچ کا بول بالا کرنے کے لیے میں نے اپنی پارٹی کا نام آل پاکستان لوٹا فرنٹ رکھا ہے۔ اس پارٹی میں صرف وہی لوٹا شامل ہو گا جو پہلے اس امر کا اعتراف کرے گا کہ وہ لوٹا ہے۔ جھوٹے اور منافق لوگوں کے لیے ہماری پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ درست ارشاد ہوا۔ اب فرمائیے کہ آپ کی پارٹی کا منشور کیا ہے؟ لوٹوں کا منشور کیا ہو سکتا ہے۔ وہی جو آج تک منتخب لوٹے عملاً کرتے آئے ہیں۔ ہم بھی کامیاب ہونے کے بعد بالکل انہی کے نقس قدم پر چلیں گے۔ ہماری پارٹی کے بنیادی اصول چھ ہے۔ 1۔ ضمیر فروشی‘ 2۔ جھوٹ‘ 3۔ کرپشن‘ 4۔ مفاد پرستی‘ 5۔ ہوسِ زر‘ 6۔ ہوسِ اقتدار۔ اب میں ایک سوال ضمیر فروشی کے حوالے سے پوچھنا چاہوں گا۔ بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ لوٹوں کا کوئی ضمیر نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنا ضمیر فروخت کر چکے ہوتے ہیں۔ آپ کے لوٹے ضمیر کی عدم موجودگی میں کیسے ضمیر فروشی کرسکیں گے؟ آپ نے بالکل جاہلوں جیسی بات کی ہے۔ آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ جس طرح عقل استعمال کرنے سے گھٹتی نہیں بلکہ بڑھتی ہے‘ اسی طرح ضمیر ایک ایسی چیز ہے جسے جس قدر بیچا جائے یہ اسی قدر بڑھتا ہے۔ چنانچہ ضمیر کی جتنی مقدار کسی ضمیر فروش کے پاس ہوتی ہے ایماندار آدمی کے پاس اس کا چوتھائی حصہ بھی نہیں ہوتا۔ ضمیر کسی چینی کی بوری کا نام تو ہے نہیں جو بک گئی تو خالی ہو جائے گی۔عام زندگی میں آپ نے کئی ضمیر فروش دیکھے ہوں گے جو تمام عمر بھوک کے بھائو سے ضمیر بیچتے رہے‘ پھر بھی مرتے وقت وہ صاحب ضمیر تھے۔ سردار صاحب! میں آپ کی بات بالکل سمجھ گیا۔ آپ کی ذہانت دیکھ کر میں قائل ہوگیا ہوں کہ ضمیر فروش حضرات نہایت ذہین ہوتے ہیں۔ اور کیا ایک بوقوف اور dull آدمی کیا جانے کہ ضمیر فروشی کے آداب کیا ہیں۔ لیکن آپ کی پارٹی کا نام سن کر شاید کوئی بھی سیاسی پارٹی آپ سے انتخابی اتحاد پر تیار نہ ہو۔ ایسے میں آپ کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ آپ سے اتنے اچھے سوال کی توقع نہیں تھی۔ بہرحال آپ کو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ لاہور کی دو ضمیر فروش سیاسی پارٹیوں سے ہمارا اتحاد ہو چکا ہے۔ ایک تو جناب ڈاکٹر امبر شہزادہ کی آپ جناب سرکار پارٹی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا۔ یہ وہی پارٹی ہے جس نے چند سال پہلے آل پاکستان ضمیر فروش کانفرنس منعقد کروائی تھی۔ اس کانفرنس میں اپنے ضمیر فروش ساتھیوں کے ساتھ میں نے بھی شرکت کی تھی۔ دوسری پارٹی ہے پرانی انارکلی لاہور کے جناب سلیم کرلا (مرحوم) کے جاں نشیں قیصر مجاہد کی پاور ہنگری پولیٹیکل برادر ہڈ۔ یہ دونوں پارٹیاں لاہور میں بہت مقبول ہیں کیونکہ پاکستان کے بڑے بڑے ضمیر فروشوں کی اکثریت کا تعلق اسی شہر سے ہے۔ ویسے اللہ کے فضل و کرم سے دوسرے شہروں میں بھی ضمیر فروشوں کی کمی نہیں۔ انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ آئندہ الیکشن میں آل پاکستان لوٹا فرنٹ توقع سے کہیں زیادہ سیٹیں حاصل کرے گا۔ ہم نے مسلم لیگ ن‘ پاکستان پیپلزپارٹی (زرداری گروپ) اور تحریک انصاف کے تمام سرکردہ لوٹوں سے بھی رابطہ کیا ہے۔ ان کا response خاصا حوصلہ افزا ہے۔ ہمیں قوی امید ہے کہ بہت سے لوٹے ہماری طرف لڑھک آئیں گے۔ کیا آپ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تمام سیٹوں پر امیدوار کھڑے کریں گے؟ بالکل! اتنے امیدوار کہاں سے آئیں گے؟ آپ نے پھر احمقانہ بات کی۔ جی چاہتا ہے کان سے پکڑ کر آپ کو باہر نکال دوں۔ ارے بھئی‘ ہمیں امیدواروں کی کیا کمی۔ ہمارے ملک میں مٹی‘ دھات اور پلاسٹک سے بنے ہوئے لوٹوں کی نسبت گوشت پوست کے بنے ہوئے لوٹے تعداد میں کہیں زیادہ ہیں۔ مسئلہ صرف ان کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا ہے۔ فی الحال یہ لوٹے مختلف سیاسی پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ یہ سب لوٹے ہمارے فرنٹ میں جمع ہو جائیں۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو تمام سیاسی پارٹیاں شیخ رشید کی پارٹی سے بھی چھوٹی رہ جائیں گی۔ کئی ایک کا تو نام و نشان ہی مٹ جائے گا۔ آپ کا انتخابی نعرہ کیا ہوگا؟ انتخابی نعرہ بڑا عام فہم اور آسان ہوگا جو ووٹ دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے… آپ چپ کیوں ہو گئے؟ خالی جگہ آپ خود پرکرلیں۔ جی بہتر آپ کا بہت بہت شکریہ‘ خدا حافظ۔ خدا حافظ۔