اردن کے موجودہ بادشاہ عبداللہ کا والد شاہ حسین میر صاحب کے گھر مہمان تھا، وہ یہاں تیتر کا شکار کھیلنے آیا تھا۔ میر غلام علی تالپور اس وقت سندھ اسمبلی کے سپیکر بھی تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب صوبہ سندھ کا صدر مقام حیدرآباد تھا اور سندھ اسمبلی کا اجلاس دربار ہال میں منعقد ہوتا تھا۔ پاکستان کا گورنر جنرل ایک سابقہ بیوروکریٹ تھا، جس نے لیاقت علی خان کو ’’غریب آدمی کا مشہورِ زمانہ بجٹ‘‘ بنانے میں مدد کی تھی۔۔ یہ ملک غلام محمد بعد میں سیاست میں آیا اور لیاقت علی خان کی وزارتِ عظمیٰ میں وزیرخزانہ مقرر ہوا۔ یہی وہ شخص تھا، جس نے پاکستان کا وہ پہلا پانچ سالہ منصوبہ تحریر کیا، جس کی ایک کاپی جنوبی کوریا کے حکمران لے کر گئے تھے اور اس پر عمل کر نے سے وہ آج دنیا کی مضبوط معیشتوں میں سے ایک ہیں۔ ملک غلام محمد نے باریسال (مشرقی پاکستان، موجودہ بنگلہ دیش) کے ایک سابقہ سیاست دان اور اس وقت کے کیرئیر سفارت کار محمد علی بوگرہ کو امریکہ سے بلا کر وزارتِ عظمیٰ کی مسندپر بٹھا دیا تھا۔ یہ شخص 1940ء میں متحدہ بنگال میں ’’حسین شہید سہروردی‘‘ کی قیادت میں کابینہ کا رکن تھا۔ پاکستان بننے کے بعد وزارتِ خارجہ میں ملازمت اختیار کرلی۔ امریکہ میں سفیر تھا کہ، اسے واپس بلا کر وزارتِ عظمیٰ سونپ دی گئی۔ اسی شخص کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بہت بڑا بھونچال ڈیزائن کیا گیا تھا۔ پاکستان کی حکمران سیاسی قیادت یہ سمجھتی تھی کہ اگر پاکستان کے مغربی حصے کے تمام صوبوں کو ملا کر ایک ون یونٹ بنادیا جائے تو علاقائی عصبیتوں میں کمی آجائے گی۔ اس منصوبے کا ڈرافٹ ممتاز سیاست دان میاں ممتاز دولتانہ نے تیار کیا جو اس وقت پنجاب کے وزیرِاعلیٰ تھے۔ محمد ایوب کھوڑو اسوقت سندھ کے وزیراعلیٰ تھے۔ سندھ اسمبلی کے 102 اراکین تھے جن میں سے چند ایک کے بارے میں یہ خطرہ تھا کہ وہ ’’ون یونٹ‘‘ کے بل کی مخالفت کریں گے۔ ان میں سے سب سے زیادہ شک سندھ اسمبلی کے اسپیکر میر غلام علی تالپور پر تھا۔ سیاسی حکومت کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھی۔ گیارہ دسمبر 1954ء کی صبح جب میر غلام علی تالپور سندھ اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کے لیے اپنے گھر سے دربار ہال کی جانب روانہ ہوئے تو سیشن عدالت کے پاس ان کی گاڑی روک کرانہیں ایک پک اپ میں ڈالا گیا اور تھرپارکر لے جاکر ایک اونٹ پر سوار کرکے مٹھی کے علاقے میں چھوڑدیا گیا۔ اسمبلی کا سیشن منعقد ہوا، ڈپٹی سپیکر نے صدارت کی۔ وزیراعلیٰ محمد ایوب کھوڑو نے قرارداد پیش کی جو 102 میں سے 98 ووٹوں کی واضح اکثریت سے منظور کرالی گئی۔ تالیاں بجیں، مبارکباد کا غلغلہ بلند ہوا، تقریریں ہوئیں اور شام کو میر غلام علی تالپور کی ’’علامتی گمشدگی‘‘ ختم ہوئی اور وہ اپنے گھر کی جانب واپس روانہ ہو گئے۔ پاکستانی تاریخ کے اس پہلے ’’مختصر مدت کے لیے لاپتہ ہونے والے‘‘ اسپیکر کا آج کوئی نام بھی نہیں جانتا۔ میں نے اس دور کے اخبارات کے آرکائیوز بھی دیکھے لیکن ان میںبھی موصوف کا ایک یا دو کالمی تذکرہ ہے۔ میر غلام علی تالپور اگر آج کے سوشل میڈیا کے دور میں ہوتے تو ان کی قسمت کا ستارہ بھی مطیع اللہ جان کی طرح چمک اٹھتا۔ ٹویٹر پر چلنے والا ٹرینڈ جو ایک ہزار بھی مشکل سے عبور کرسکا تھا اچانک مقبولیت کی سیڑھیاں چلنے لگ جائے۔ اگلے دن آپ نے سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے ملزم کی حیثیت سے جانا تھا لیکن صرف ایک ’’اغوا‘‘ نے آپ کا مرتبہ، حیثیت اور مقام ہی بدل کے رکھ دیا۔ اب آپ وہاں آزادیٔ اظہار کے ہیرو کی طرح داخل ہوئے۔ صرف چند گھنٹے کی علامتی گمشدگی اور پھر گمنامی سے مقبولیت کی جانب اتنی بڑی چھلانگ۔ یہ ہے نصیبوں کی بات۔ اگر مطیع اللہ جان 1954ء میں ہوتا تو اخبار میں اسکا تذکرہ تک نہ ملتا اور اگر میر غلام علی تالپور 2020ء میں ہوتے تو سندھ دھرتی کے ’’عظیم فرزند‘‘ کہلاتے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ایوب کھوڑو سے لے کر آج تک بھی حکومتوں کا احمقانہ پن نہیں بدلا۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے اپنی حماقت پر پردہ ڈالنے کے لئیے میر غلام علی تالپور پر یہ مقدمہ بنایا گیا تھا کہ وہ اپنے معزز مہمان اردن کے شاہ حسین کو قتل کروانا چاہتے تھے۔ آج اتنی احتیاط ضرور کی گئی ہے کہ ’’نامعلوم افراد‘‘ کے خلاف ’’علامتی گمشدگی‘‘ کا مقدمہ درج ہوا ہے۔ وہ مقدمہ بھی داخل دفتر ہو گیا تھا، اور اس مقدمے کا بھی مستقبل روشن نظر نہیں آتا۔ پاکستان کی تاریخ میں سیاسی انتقام اور جاگیردارانہ ذہنیت کا ہمیشہ سے راج رہا ہے۔ اس ’’انتقام‘‘ اور ’’انا‘‘ نے اس ملک کو ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی دشمنوں سے نمٹنے کے نت نئے تصورات دئیے ہیں۔ ستر کی دہائی اور ’’فخرایشیا‘‘، ’’قائدِ عوام‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی۔ دنیا بھر میں ابھی تک مخالفین کو لاپتہ کرنے کا دھندا شروع نہیں ہوا تھا۔ لاطینی امریکہ کی آمریتیں بھی بندہ ماردیتی تھیں، لیکن خاندانوں کو لاپتہ افراد کا دکھ اور اذیت نہیں دیتی تھیں۔ غلام مصطفیٰ کھر جو کبھی بھٹو کا قریبی ساتھی تھا، جب اس کے لیے ’’شیر پنجاب‘‘ کے نعرے لگنا شروع ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو کا ماتھا ٹھنکا۔ اس نے اس ابھرتے ہوئے لیڈر کی لیڈری کو دبانے کے احکامات جاری کردئیے۔ بھٹو اپنی حکومت کے تحت، سیاسی مخالفین کے قتل اور اغوا کے لیے ایک علیحدہ قوت فیڈرل سکیورٹی فورس تشکیل دے چکا تھا۔ اس فورس نے پاکستان کے طول و عرض میں جس ظالمانہ اور بہیمانہ طریقے سے سیاسی مخالفین کا قتل عام کیا، اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان کا پہلا نشانہ ڈیرہ غازی خان سے جماعتِ اسلامی کے درویش صفت ایم این اے ڈاکٹر نذیر احمد تھے، پھر اس کے بعد تو لائن ہی لگ گئی، خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ محمدرفیق، بلوچستان اسمبلی کے مولوی شمس الدین، محمود خان اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی اور سی پیک اتھارٹی کے سربراہ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے والد ممتاز ڈاکٹر اور جماعتِ اسلامی کے رہنما محمد سلیم باجوہ کے علاوہ لاتعداد سیاسی کارکن جو گمنامی کی موت مارے گئے۔ بھٹو نے اپنے مخالفین کو مستقل اذیت کا شکار رکھنے کیلئے سیاست دانوں کو لاپتہ کرنے کی رسم کا بھی آغاز کیا۔ اس مقصد کے لیے آزاد کشمیر کے علاقے میں ایک خفیہ ٹھکانہ بنایا گیا جسے دلائی کیمپ کہتے تھے۔ غلام مصطفیٰ کھر کے معتمد خاص، ممبر صوبائی اسمبلی، میاں افتخار تاری اور اسکے تیس کے قریب ساتھیوں کو اغوا کرکے وہاں رکھا گیا۔ یہ افراد بھٹو کے تمام دور حکومت تک لاپتہ تھے۔ ان کے گھرانوں کو اس بات کا بالکل علم نہ تھا کہ وہ زندہ ہیں یا مرگئے۔ 6جولائی 1977ء وہ مبارک دن تھا جب ان لاپتہ افراد کی اذیت ختم ہوئی اور ضیاالحق نے انہیں وہاں سے برآمد کیا۔ دلائی کیمپ اور وہاں پر رکھے گئے افراد کی کہانی بھٹو دور میں اس وقت منظرعام پر آئی جب ایف ایس ایف کا ایک ہیڈ کانسٹیبل رشید الدین ان 33 سیاست دانوں پر اذیت ناک تشدد برداشت نہ کر سکا اور بھاگ نکلا۔ ایف ایس ایف کے اہل کار اس کی تلاش میں سرگرداں ہو چکے تھے اور پھر ایک دن رشیدالدین خود بھی لاپتہ ہوگیا۔ اسے ایف ایس ایف کے کئی عقوبت خانوں میں رکھا گیا جن میں آخری ٹھکانہ وارسک ڈیم کے پاس تھا۔ سترہ ماہ کے انتہائی اذیت ناک تشدد کے بعد اسے گھر واپس چھوڑدیا گیا۔ وہ شخص اس قدر خوفزدہ تھا کہ اسے ہر وقت ایف ایس ایف کے سپاہی پیچھا کرتے نظر آتے۔ رہائی کے فوراً بعد ہی اس نے پاکستان سے رخصتِ سفر باندھا اور یورپ میں پناہ حاصل کرلی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’جو انسان بھی ناحق قتل ہوتا ہے اس کے قتل کے گناہ کا ایک حصہ حضرت آدم کے پہلے بیٹے (ہابیل) کو بھی ملتا ہے کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے قتل کا طریقہ شروع کیا۔ (بخاری مسند احمد) یہ میرے اللہ کی سنت ہے، جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ ہر نئے واقعے کیساتھ گذشتہ تاریخ اسی لئے بیان کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو اس ملک میں ظلم کی بنیاد رکھنے والوں کا علم ہو اور وہ ان کے گناہوںمیں مسلسل اضافے سے بھی آگاہ ہو سکیں۔