بھارت کو جب تک اس کی زبان میں جواب نہیں ملے گا، پاکستان میں امن اور قرار ممکن نہیں۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ بلوچستان میں دہشت گردی پھر سے پھوٹ پڑی ہے۔ یہی نہیں، قبائلی علاقے اور سوات بھی اب ہدف ہیں۔ آئی جی پختون خوا کے مطابق گرفتار دہشت گردوں نے ایک منصوبے کی تفصیلات بیان کی ہیں، جس کا ہدف وادی ء جنت نظیر کو پھر سے جہنم میں تبدیل کرنا ہے۔بھتے کے لیے،پشاور میں دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں، افغانستان کے نمبروں سے۔ افغانستان میں محدود ہوتے بھارتی کردار نے دلّی کو وحشت میں مبتلا کر دیا ہے۔دو برس پہلے ’’را‘‘ کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے اجیت دوول کی ایک تقریر آئی ایس آئی نے ریکارڈ کر لی تھی۔ ارشاد کیا تھا کہ بلوچستان کو الگ کر دیا جائے گا اور یہ کہ براہِ راست حملے کی بجائے پاکستانی طالبان کی مدد سے۔ بندوں کے اپنے منصوبے ہیں اور اللہ کے اپنے۔ قدرت کے دائمی اصولوں سے آدمی خود کو ہم آہنگ کر سکے تو قرار پا تا ہے وگرنہ وہی سطحی، بے معنی زندگی۔ پوٹھوہار کے لا فانی شاعر میاں محمد بخش نے کہا تھا: کیکر کی شاخوں میں جھولتے چیتھڑوں کی طرح۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ امن کا حصول صرف خوف کے توازن سے ممکن ہے۔ بھارت ایسے بے رحم اور سفاک دشمن کے پڑوس میں زندگی کرنے کے لیے اور بھی زیادہ۔ جنگ کوئی ایسی چیز نہیں، جس کی آرزو کی جائے۔ پسپائی بھی کوئی حکمتِ عملی نہیں۔ ایک بار آپ بلیک میل ہو جائیں تو ہمیشہ ہوتے جائیں گے۔ ایک بار دشمن جان لے کہ آپ کو خوفزدہ کرنے میں وہ کامیاب رہا ہے تو ہمیشہ کرتا رہے گا۔ پاکستان کے اس بہادر فرزند بریگیڈئیر سلطان نے کہا تھا: دشمن اتنا ہی بہادر ہوتاہے، جتنے آپ بزدل اور اتنا ہی بزدل، جتنے آپ بہادر۔ بھارتی منصوبہ بالکل واضح ہے۔ پرلے درجے کے احمقوں اور مغربی امداد سے کام کرنے والی این جی اوز والے دانشوروں کے سوا ہر شخص جانتا ہے کہ بھارتی برہمن پاکستان کے مکمل خاتمے کا آرزومند ہے۔خاکم بدہن،پختون خوا کو افغانستان میں شامل کر دیا جائے۔بلوچستان اور سندھ الگ ممالک بن جائیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا، انشاء اللہ کبھی نہیں۔ المناک یہ ہے کہ اکثریت بھارتی عزائم کو سمجھتی ہی نہیں۔ نریندر مودی تو خیر ایک جنونی ہیں، دانشور پنڈت جواہر لعل نہروکی آرزو بھی مختلف نہیں تھی۔ انہی کے حکم سے کشمیر پہ قبضہ کیا گیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ساز باز کر کے مشرقی پنجاب کے بعض علاقے اس لیے پاکستان کو دیے گئے کہ ریاست جموں کشمیر پہ قبضہ جمایا جا سکے۔ دریائے راوی کے اس پار مسلمان اکثریت کے علاقے پاکستان کا حق تھے۔ ریڈ کلف کمیشن کا فیصلہ جو بھی تھا، پاکستان کو اسی وقت مقبوضہ کشمیر کے لیے بھارت کی سپلائی لائن کاٹ دینا چاہئیے تھی۔ یہ مشورہ اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ نواب افتخار ممدوٹ کو جماعتِ اسلامی کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی نے دیا تھا۔ ان کا جواب یہ تھا: مولوی صاحب، آپ اپنا کام کیجیے اور ہمیں اپنا کرنے دیجیے۔ ظاہر ہے کہ فیصلہ ممدوٹ نہیں، قائدِ اعظمؒکو کرنا تھا۔ ان کا اندازِ فکر مگر ظاہر ہوا کہ متامّل تھے۔ تجویز پیش کرنے پر بھی آمادہ نہ ہوئے۔ یہی اندازِ فکر اوروں نے بھی اختیار کر لیا ہوتاتو گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر آج پاکستان کا حصہ نہ ہوتے۔ کہا جاتاہے کہ پاکستان کی دفاعی اور خارجہ پالیسی کو بھارت پہ مرتکز (India Centric ) نہیں ہونا چاہئیے۔ کیوں نہیں ہونا چاہئیے؟ جب کہ خود بھارت کی دفاعی اور خارجہ پالیسی پاکستان مرتکز ہے۔ پاکستانی سرحدوں کے اردگرد بھارتی فوج اس طرح پھیلائی گئی ہے کہ جب بھی ضرورت پڑے، آسانی سے حملہ آور ہوجائے۔ امن ہی سب سے قیمتی متاع ہے۔ آزادی امن سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ غلامی اور خوف کی زندگی زندگی نہیں، حیوانیت سے بھی بدتر ہے۔ بے حمیتی سے مرجانا بہتر ہے۔ قائدِ اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد غالباً بھٹو اور جنرل محمد ضیاء الحق ہی دو ایسے حکمران تھے، پوری طرح جو بھارتی عزائم کا ادراک رکھتے تھے۔ ہوسِ اقتدارکی بحث الگ ہے۔ لیڈر اس سے اوپر اٹھ جائے تو اولیا کی سی عظمت پاتا ہے۔ ایک سیاستدان کو ایسا مصلحت کیش مگر نہ ہونا چاہئیے کہ اس کی حکمت میں بزدلی گندھی ہو۔ آغا شورش کاشمیری مرحوم کا جملہ آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے: بزدل کا سفینہ کنارے پہ ڈوبتا ہے اور بہادر کا منجدھار میں۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، مقبول بٹ کی شہادت پر جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال کی اپیل کی اور پوری طرح اس پہ عمل ہوا۔ یہ وہی تھے، جنہوں نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور یہ کہا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن بم بنا کر رہیں گے۔ جنرل ضیاء الحق نے اس منصوبے کو پروان چڑھایا اور پانچ سال میں تکمیل تک پہنچایا۔ بے نظیر بھٹو کے عہدِ اقتدار میں ایٹمی میزائلوں کا منصوبہ بنا۔جنرل عبد الوحید کاکڑ ایک دن ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے جدید ترین میزائل بنانے کی فرمائش کی۔ سائنسدان نے حیرت سے انہیں دیکھا اور کہا ’’میں نے تو آج تک ننگی آنکھ سے میزائل دیکھا تک نہیں۔‘‘ جنرل کاکڑ کا جواب یہ تھا: مگر آپ کی ٹیم بہت اچھی ہے۔ سوادوسال میں پاکستانی سائنسدانوں نے ٹھوس ایندھن سے بنا ہوا میزائل مکمل کر لیا۔بھارتی آبادی، فوج اور معیشت بڑی ہے لیکن جذبہ ء شہادت سے سرشار ہمارا سپاہی اور خیرہ کن عزم سے سرشار ہمارے سائنسدان کی وہ تاب نہیں لا سکتا۔کبھی جنگ ہوئی تو یہ منکشف ہوگا کہ پاکستان کو غیر معمولی دفاعی بالادستی حاصل ہے۔ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے بنائے ہوئے میزائل کا انہی دنوں تجربہ کیا جانا تھا، جب بھارت کے جواب میں پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کیے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف بعد میں تو بھارت کے گرویدہ ہی ہو گئے۔ اتنے گرویدہ کہ نریندر مودی کے مصاحب نظر آنے لگے۔ ان دنوں بھی وہ نیم دلی کا شکار تھے۔ قوم مگر متحد ہو گئی۔دباؤ اتنا بڑھا، اتنا بڑھا کہ دھماکہ کرنے کے سوا تمام راستے بند ہو گئے۔ قومی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے مجید نظامی مرحوم نے ان سے کہا: آپ اگر دھماکہ نہیں کریں گے تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے بعد رفتہ رفتہ ہم پیچھے ہٹتے چلے گئے۔ سیاست الگ، واقعہ یہ ہے کہ بھارتی عزائم کا مکمل ادراک رکھنے والے وہ آخری حکمران تھے۔ 1987ء میں راجیو گاندھی نے پاکستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیاتو کرکٹ میچ دیکھنے وہ بھارت گئے اور راجیو کے قدموں تلے زمین کانپنے لگی۔رفتہ رفتہ مرعوبیت ہمارا شعار ہو گئی اور اب تک ہے۔ اگست 2019ء میں کپتان نے اعلان کیا تھا کہ وہ کشمیریوں کے سفیر ہیں۔ اس سفیر کا کارنامہ کیا ہے، تگ و تاز کیا؟بھارت کو جب تک اس کی زبان میں جواب نہیں ملے گا، پاکستان میں امن اور قرار ممکن نہیں۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔