لاہور میں سموگ شہریوں کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکی ہے۔ اکتوبر کے آخری دنوں سے دسمبر تک لاہور شہر گہری دھند اور دھوئیںمیں لپٹا رہتا ہے۔ صبح کے وقت روشنی اتنی کم ہوجاتی ہے کہ ٹریفک کا چلنا دُوبھر ہوجاتا ہے۔ آنکھوں میں جلن ہوتی ہے۔ لوگ سانس اور دل کی بیماریوں میں مبتلا ہونے لگتے ہیں۔ شہر سے باہر جانے والی بڑی شاہراہیں صبح اورشام کے وقت بند ہوجاتی ہیں۔کاروبار زندگی ماند پڑ جاتا ہے۔ زندگی مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے۔ یُوں لگتا ہے ہم سب اس آ ٓفت کے سامنے بے بس ہیں۔حالانکہ دنیا کے کئی ممالک اس مسئلہ پر برسوں پہلے قابو پاچکے۔ایک تو وسطی پنجاب کی مٹی ایسی ہے جس کے باریک ذرّات فضا میں معلق ہوجاتے ہیںخاص طور سے جب بارش نہ ہو‘ فضامیں نمی ہوجیسا کہ سردیوں میں ہوتا ہے۔ لاہور میں سموگ کی سب سے بڑی وجہ تو موٹرگاڑیوں کا دھواں ہے۔ کاریں‘ بسیں‘ٹرک‘ رکشے ‘ چنگ چی رکشے‘ موٹر سائیکلیں سب اس گناہ میں شامل ہیں۔گزشتہ دس پندرہ برسوں میں موٹرگاڑیوں‘ موٹر سائیکلوں کی تعدادمیں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔صرف لاہور میںتقریباً پچاس لاکھ موٹر گاڑیاںاور موٹرسائیکل رجسٹرڈ ہیں۔ان سے جو دھواں خارج ہوتا ہے اس کی مقدار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے‘ خاص طور سے ٹریفک کے مصروف اوقات میں اور پرہجو م شاہراہوں پر۔ گاڑیوں کے انجنوں میں پٹرول جلنے سے نکلنے والے دھویں میں نائٹروجن آکسائڈ نامی گیس پائی جاتی ہے۔ ہوا میں اس گیس کی جو نارمل مقدار ہونی چاہیے اس سے چھ گنا زیادہ مقدار لاہور کی ہوا میں پائی جاتی ہے‘ خاص طور سے مصروف سڑکوں پر ٹریفک کے ہجوم کے وقت۔یہ انسانی صحت کی لیے ایک مضر صورتحال ہے۔ سموگ سے نپٹنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ گاڑیوںسے نکلنے والے دھویں پر قابوپایا جائے۔ گاڑیوں کی سالانہ چیکنگ کا نظام موثربناکر خراب یا زیادہ پرانے انجن والی گاڑیوں کوسڑکوں پر نہ لانے دیا جائے۔ حکومت اس بارے میں قانون بنائے ‘ اُس پر سختی سے عمل کرائے۔ کئی ممالک میں اب یوروپانچ اور یورو چھ معیار کے انجن والی گاڑیاں چلائی جارہی ہیں جن کے انجن کم سے کم آلودگی پھیلاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ابھی تک ایسے قدیم انجنوں والی گاڑیاں بن رہی ہیں جنہیں ترقی یافتہ دنیا ترک کرچکی ہے ‘ اُن پر پابندی لگا چکی ہے۔اس پر مستزادپٹرول میں ملاوٹ کی جاتی ہے جو آلودگی میں مزید اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ حکومت کو ایسے پٹرول پربتدریج پابندی لگادینی چاہیے جو یورو چھ معیار کا نہ ہو۔ اسی طرح ڈیزل سے چلنے والی بسیں‘ کاریںاور ٹرک سلفر آکسائڈ نامی گیس فضا میں خارج کرتی ہیں۔ ہمارے ملک میں جو ڈیزل استعمال ہوتا ہے اس میں سلفر کی مقدارخاصی زیادہ یعنی ایک فیصد ہوتی ہے جبکہ یورپ میں استعمال ہونے والے ڈیزل میں اس کی شرح بہت کم یعنی 0.3 فیصد ہوتی ہے۔ حکومت کوکم سلفر والے ڈیزل کی فراہمی پر کام کرنا چاہیے۔اگر حکومت آج اس پر کام شروع کرے گی‘قانون سازی کرے گی تو چند سال بعد جاکر اس پر کچھ عمل ہوسکے گا۔ لاہور شہر میں نصب ایک ہزار سے زیادہ بڑے اور پانچ ہزارسے زیادہ چھوٹے کارخانے فضائی آلودگی کی دوسری بڑی وجہ ہیں۔یہ کارخانے شہرکے نواح میں پچیس تیس سال پہلے لگائے گئے تھے لیکن آبادی بڑھتی گئی ‘رہائشی علاقے نواحی علاقوں تک پھیل گئے بلکہ ان سے بھی آگے دیہات تک پہنچ گئے۔لاہور کے علاقہ داروغہ والا میں تین سو کے قریب فرنس اور اسٹیل ملیں ہیں۔ ان میں سے بعض پلاسٹک اور ربڑ کو ایندھن کے طور پر جلاتی ہیں جس سے بہت زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں۔لاہور شہر کے مغرب میں دریائے راوی کے ساتھ کانسبتاً ویران‘ دیہی علاقہ غیرقانونی سرگرمیوں کا مرکز ہے جہاں عموما رات کے وقت ٹائر اور بیٹریاں جلاکر تیل اور لیڈ نکالے جاتے ہیں۔ اس عمل میں نکلنے والا دھواں انتہائی زہریلاہوتا ہے لیکن اس پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ پنجاب میں دس ہزار سے زیادہ اینٹیں بنانے کے بھٹے بھی فضاخراب کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ متعدد بھٹوں کو کم آلودگی پھیلانے والی زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا گیا ہے لیکن سب کو نہیں۔ یہ کام جلد مکمل کیا جانا چاہیے۔قانون میں لازم ہے کہ بڑے صنعتی کارخانے چمنیوں سے خارج ہونے والے دھویںسے آلودگی کم کرنے کے آلات نصب کریں لیکن اس پر پُوری طرح عمل نہیں کیا جاتا۔ محکمہ ماحولیات کا عملہ رشوت لیکر خلاف ورزی کرنے والوں کو من مانی کرنے دیتا ہے۔فضا کو زہریلا بنانے میں بیس فیصد حصّہ زراعت کا ہے۔ اکتوبر میں وسطی پنجاب میں سموگ اور دھندبننے کی ایک بڑی وجہ چاول کے کھیت ہیں۔بعض علاقوں میں گنے کے کھیت بھی۔ دھان اور گنا کاٹنے کے بعدبڑے پیمانے پر ان کی باقیات‘ مڈ جلائے جاتے ہیں جس کے دھویں سے فضا میں کاربن پھیل جاتی ہے۔ یہ بھی دھند کے سا تھ مل کرسموگ بناتی ہے۔ کالا شاہ کاکو میں چاول کے تحقیقاتی ادارہ نے ایسے آلات تیار کیے ہیں جن سے دھان کی باقیات کو کھیت میں باریک باریک کاٹ کرتلف کیا جاسکتا ہے‘ انہیں آگ لگانے کی ضرورت نہیں۔ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ کسانوں تک ان آلات کی فراہمی آسان ہوجائے۔ کئی برسوں سے ہر سال دھند اور سموگ سے شہری زندگی متاثر ہورہی ہے۔ میڈیا پر شور شرابا ہوتا ہے۔ حکومت اس سے نپٹنے کو کمیٹیاں بنادیتی ہے۔ کچھ کارخانے چند روز کو بند کردیتی ہے۔ دو سال پہلے توسموگ کی شدت کے باعث اسکولوں کے اوقات کار بھی تبدیل کردیے گئے تھے۔لیکن افسوس بات یہ ہے کہ حکومت اس مسئلہ پر قابو پانے کی لیے مستقل جامع اقدامات نہیں کرتی۔فضائی آلودگی ایک سنگین معاملہ ہے جس سے لاکھوں لوگوں کی صحت اور روزگارمتاثر ہوتے ہیں لیکن حکومت حسب معمول ڈنگ ٹپاو پالیسی پر عمل پیرا ہے۔