لاہور(نامہ نگارخصوصی)لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس سیدشہباز علی رضوی پرمشتمل ڈویژن بنچ نے آمدنی سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار مسلم لیگ (ن) کے رہنماخواجہ محمدآصف کی درخواست ضمانت منظور کرلی ،فاضل بنچ نے قرار دیا بادی النظر میں نیب جو الزام لگا رہا ، اس کے ثبوت پیش نہیں کررہا ۔نیب کے وکیل نے بتایا تحقیقات ریفرنس کی صورت میں مکمل کرلی ہیں ،عدالت نے قرار دیا آپ کی دستاویزات میں فرق ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ نیب کے افسر کام نہیں کرتے ،کیا نیب کا کام یہی ہے کہ آپ کے افسر دفاتر میں بیٹھے رہیں اور ملزم خود آکر دستاویزات دے اور نیب اس پر فیصلہ کر دے ؟ ،نیب خود تو وضاحت نہیں دیتا مگر لوگوں سے پوچھتا ہے کہ وضاحت دو،آپ اپنے جواب میں کچھ چیزوں کو ختم نہیں کرسکتے ، آپ کو بتاناہوگا خواجہ آصف نے کتنی کتنی رقم اکاؤنٹس میں جمع کرائی؟۔ آپ نے دو رپورٹس پیش کیں اور دونوں میں فرق ہے ۔نیب کے وکیل نے کہا ایسا نہیں ہے ،پہلی رپورٹ میں کل رقم 23 کروڑ اور دوسری میں کم ہو کر 15کروڑ رہ گئی ، نیب کی اگر بدنیتی ہوتی تو رقم بڑھائی جاتی مگر یہاں کم ہوئی جو نیک نیتی کا ثبوت ہے ۔ جسٹس عالیہ نیلم نے کہا ہمارے سامنے نیب کے 2 جواب ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں، کیا آپ نے تفتیشی سے پوچھا کہ کیااس نے تحریری جواب میں وقت تبدیل کرنے کا ذکر کیا؟ نیب نے اپنا موقف خود تبدیل کر لیا۔ چلیں آگے چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ تفتیشی افسر آپ کو کتنی اچھی معلومات دیتے ہیں، تحریری جواب میں آپ کہہ رہے ہیں کہ تحقیقات جاری ہیں اور تفتیشی آ کر کہتا ہے عدالت سے وقت لیا جائے کہ ریفرنس منظوری کیلئے بھیجا ہے ، یہ کیا ہے ؟، نیب کے تفتیشی کیا کر رہے ہیں؟ نیب غیر جانبدار رہے ۔ نیب کو جو ریکارڈ فائدہ دے رہا وہ تو نیب نے ریکارڈ کر لیا، جو ریکارڈ خواجہ آصف کو فائدہ دے رہا ہے تو نیب اس کو ریکارڈ نہیں کر رہا۔ جسٹسشہباز علی رضوی نے استفسارکیا کیا اقامہ پر تنخواہ درج ہوتی ہے ؟جس پر خواجہ آصف کے وکیل نے اقامہ عدالت میں پیش کردیا،جسٹس عالیہ نیلم نے کہا نیب اقامہ تو مانتا ہے مگر اسکی شرائط نہیں ، جسٹس شہباز علی رضوی نے کہا عدالت نے اقامہ تسلیم کر رکھا ہے ، سرٹیفکیٹ موجود ہے ۔