آج کا دن اہم دن بننے جا رہا ہے، احتساب عدالت ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سنا رہی ہے، فیصلہ جو بھی آئے، نواز شریف، ان کی فیملی اور(ن) لیگ کیلئے قابل قبول ہو یا نہ ہو، پاکستان اور پاکستان کے عوام کا مستقبل آج کے فیصلے سے ضرور جڑا ہوا ہے، فیصلے کے بعد کیا ہوتا ہے؟ یہ نوشتہ دیوار نہیں، اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ نواز شریف سب سے زیادہ مقبول اور پاپولر لیڈر ہیں تب بھی قومی سطح پر توقع نہ رکھی جائے کہ لوگ احتجاج کریں گے ،جمہوریت میں بھی اور آمریت میں بھی، کئی بار دیکھا گیا کہ پاپولر قیادت کو اگر نام نہاد مقدمات میں بھی سزائیں ہوجاتی ہیں تب بھی اس کے حامی احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں، شریف خاندان کو ماضی میں جب خود ساختہ جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑا، مجھے اس بات پر بہت رنج ہوا تھا کہ لوگ سڑکوں پر کیوں نہیں نکلے؟، میری ہمدردیاں نظریاتی اختلافات کے با وجود شریف خاندان کے ساتھ تھیں،بہت عرصہ گزر جانے کے بعد ایک خاتون کی کال آئی، وہ محترمہ فرما رہی تھیں ،، ن لیگ کی عورتیں مسجد شہداء کے باہر نواز شریف کے لئے احتجاج کرنا چاہتی ہیں، آپ کوریج کیلئے اپنی ٹیم بھجوا دیں، مجھے خوشی ہوئی ،، چلو دیر سے سہی کوئی شریفوں کیلئے نکلا تو ہے، میں نے ہنگامی طور پر ایک بڑی ٹیم وہاں بھجوادی، جیسا کے آپ کو بتا چکا ہوں، میرے دل میں نواز شریف اور ان کے خاندان کیلئے ہمدردی کے جذبات موجود تھے، اسی وجہ سے دل میں خیال آیا کہ مجھے بھی اس احتجاج کو دیکھنے کیلئے جانا چاہیے، دس منٹ بعد میں ریگل چوک میں تھا، وہاں ہماری ٹیم تو موجود تھی، مگر احتجاج کرنے والا کوئی نہ تھا،، میں نے کال کرنے والی خاتون کا موبائل نمبر ملایا ، باجی ! مسجد شہداء کے باہر ہماری ٹیم تو پہنچ چکی ہے مگر وہاں احتجاج کرنے والا کوئی نہیں۔۔۔ جواب ملا،، اپنی ٹیم کو راجہ صاحب کی دکان کے باہر لے جائیں، ہم پہنچ رہی ہیں،،،ٹیم دوسری جگہ پہنچ گئی، آدھ گھنٹہ، پھر ایک گھنٹہ گزر گیا،وہاں بھی کوئی نہ آیا، میں اپنی ٹیم کو واپس آفس بھجوانے والا ہی تھا کہ وہاں ایک گاڑی آکر رکی، پہلے ہماری ٹیم کے پہنچنے کی تصدیق کی گئی اور پھر گاڑی سے چار عورتیں اتریں،انہوں نے اپنی بغلوں میں چھپائے ہوئے پوسٹرز کیمرے کے سامنے لہرائے اور اگلے دو منٹ بعد گاڑی میں سوار ہو کر وہ واپس جا چکی تھیں،یہ واقعہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ ن لیگ،اس کی قیادت اور اس کے منتخب نمائندے کبھی نظریاتی رشتوں میں نہیں بندھے،نواز شریف نے احتساب عدالت سے اپیل کی ہے کہ فیصلہ کچھ دنوں کیلئے ملتوی کردیا جائے، کیونکہ میں مقدمے کا فیصلہ خود عدالت میں کھڑا ہو کر سننا چاہتا ہوں، میرے خیال میں نواز شریف کا یہ مطالبہ غیر قانونی نہیں ہے، عدالت کو آج فیصلہ سنانے کی بجائے اسے اگلی کسی مناسب تاریخ تک ملتوی کر دینا چاہیے، نیب نے بھی تو پچیس جولائی تک انتخابی امیدواروں کے خلاف کوئی عدالتی کارروائی نہ کرنے اور کوئی نئی گرفتاری نہ کرنے کا اعلان کیا ہے،جو ایک اچھا فیصلہ ہے، عمران خان کی یہ بات اچھی نہیں لگی کہ چونکہ اس مقدمے پر بہت پیسہ اور بہت وقت لگا ہے اس لئے فیصلہ آج ہی سنا دیا جائے، ہمیں انسانی رواداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بلدیاتی انتخابات میں ایک آدھ چھوڑ کر ن لیگ تمام کنٹونمنٹ ایریاز سے بھی جیت گئی تھی، آج یقینی طور پر صورتحال یکسر بدل چکی ہے اور صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ن لیگ پنجاب سے پہلے والے نتائج حاصل نہیں کر پائے گی، جو تین گیلپ سروے میڈیا پر اچھالے جا رہے ہیں انتخابی نتائج انہیں باطل ثابت کر دیں گے،جو لوگ جیپ پر بیٹھ چکے ہیں انہیں پچیس جولائی تک اور پھر حکومت سازی تک اسٹیئرنگ سے نہیں اٹھایا جا سکتا،گیلپ سروے کرنے والے کون ہیں؟ ان کی ڈوریاں کہاں سے ہلائی جاتی ہیں؟ انہیں مال پانی کون دیتا ہے؟ یہ سن دو ہزار اٹھارہ ہے، اب تو نوزائیدہ بچوں کو بھی پتہ ہے ،پیسہ بولتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ اداکارہ ماہرہ خان نے بی بی سی سے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ انہیں اداکار فہد مصطفی کے ساتھ اداکاری کا موقع ملنے کا انتظار ہے، ماضی میں ہم دونوں نے ایک ساتھ کام کرنے کے مواقع گنوا دیے۔۔ اسی انٹرویو میں ماہرہ خان نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ فہد مصطفی انہیں ،،باجی کیوں کہتا ہے؟ ماہرہ خان کو یہ بات پبلک کرنے کی بجائے فہد مصطفی سے خود پوچھ لینی چاہئے تھی۔ کیونکہ فہد مصطفی کو ان کے سن پیدائش کا پتہ چل گیا تھا، ہمارے ہاں اپنے سے بڑی لڑکی کو باجی ہی کہا جاتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ کئی سال پہلے کی بات ہے، ہماری ایک عزیز بچی نے میٹرک کے بعد سمن آباد گرلز کالج میں داخلہ لیا، ابھی کلاسز کا اجرا نہیں ہوا تھا کہ تشخیص ہوا کہ اس کے دماغ میں کینسر ہے جو جڑ پکڑ چکا ہے، یہ بات شوکت خانم میموریل اسپتال بننے سے پہلے کی ہے،میں نے اور میری بیگم نے اس بچی کی میڈیکل رپورٹس لیں اور فیصلہ کیا اس بچی کو بچانے کی کوشش کی جائے، ہم دونوں متعلقہ ڈاکٹروں کے دروازوں پر دستک دیتے رہے، کوئی بھی ڈاکٹر امید یا دلاسہ نہیں دے رہا تھا، ان دنوں کینسر کے حوالے سے لاہور میں ایک بڑا نام ڈاکٹر خالدہ عثمانی کا تھا، ہم نے ان سے وقت لیا اور شادمان میں ان کے گھر پہنچ گئے، ہمیں اندر لیجایا گیا تو ڈاکٹر صاحبہ اپنے پالتو کتے کو گود میں لئے اس سے لاڈیاں کر رہی تھیں، ہم نے اس بچی کی میڈیکل رپورٹس ڈاکٹر صاحبہ کے حوالے کیں، انہوں نے سرسری ساجائزہ لینے کے بعد فائل ہمیں واپس کرتے ہوئے فرمایا،،میں آپ کو اس مریضہ کا آپریشن کرانے کا مشورہ نہیں دوں گی،آپریشن کرائیں یا نہ کرائیں دونوں صورتوں میں بچی نے مرنا ہی ہے، آپ لوگ آپریشن کراکے اس مرتی ہوئی بچی کو کیوں تکلیف دینا چاہتے ہیں؟ہم خالدہ عثمانی صاحبہ کے ان ریمارکس کے باوجود نہ ڈگمگائے، اسی دن کچھ گھنٹوں کے بعد امریکہ سے میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر اختر نعیم کا فون آگیا، میں نے اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا، ڈاکٹر اختر نعیم میو اسپتال کے شعبہ جلدی امراض کے اسسٹنٹ پروفیسر تھے اور کنگ ایڈورڈ کالج میں پڑھاتے بھی تھے، اندرون خانہ سیاست سے تنگ آکر وہ پاکستان چھوڑ گئے تھے، انہوں نے ساری بات سننے کے بعد کہا،، میرے ایک سینئر ڈاکٹر میاں صاحب میو اسپتال میں ہوتے ہیں اور روزانہ جنرل اسپتال کا بھی وزٹ کرتے ہیں،آپ لوگ جنرل اسپتال میں جا کر ان سے ملو، ہمارا اگلے ہی روز ڈاکٹر میاں صاحب سے وقت طے ہوگیا، ہم ان کے پاس پہنچے،انہوں نے میڈیکل رپورٹس دیکھنے کے بعد کہا،،، آپ لوگ مریض بچی کو آج ہی میرے پاس لے آئیں کل اس کا آپریشن ہوگا، اور پھر اگلی صبح ہی وہ بچی آپریشن تھیٹر میں تھی، یہ ایک طویل سرجری تھی، شاید چھ یا آٹھ گھنٹوں پر محیط، پھر ہم نے آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا، وہ بچی اسٹریچر پر تھی، اس کی آنکھیں بند تھیں، جب اسٹریچر میرے سامنے سے گزرا تو اس لڑکی نے آنکھیں کھولیں اورمسکراتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئی،، چاچا جی! میں بچ گئی ہوں ناں۔۔۔ وہ لڑکی اب تک زندہ ہے اور ایک بیٹی کی ماں بھی ہے، اس کی خالہ نے اسے بہو بنا لیا تھا۔ درج بالا سطور میں نے خاص طور پر جناب عمران خان اور شوکت خانم میموریل اسپتال کی انتظامیہ کو متوجہ کرنے کیلئے لکھی ہیں،ان کے اس اسپتال میں بے شمار اور لاتعداد مستحق اور لاچار مریضوں کا مفت علاج تو ہو چکا ہے، لیکن اس اسپتال کی اس تھیوری سے میں کبھی متفق اور مطمئن نہیں ہو سکا کہعلاج اس کا کیا جائے جس کے بچ جانے کا یقین یا امید ہو، جب سے شوکت خانم نے یہ نیک کام شروع کیا ہے، میرے پاس لا تعداد ایسے مریضوں کے لواحقین آئے ہیں، جن کے کینسر کا علاج کرنے سے انکار کیا گیا۔ درخواست میری بس اتنی سی ہے،آپ بھلے ایسے مریضوں کا علاج نہ کریں،مگر ان سے زندہ رہنے کی امید نہ چھینیں۔۔۔ ٭٭٭٭٭ اب ایک خط جو لکھا ہے، مالا کنڈ روڈ در گئی بازار گاؤں خرکئی سے سیکنڈ ائیر کے ایک طالبعلم ناصر خان نے۔۔۔۔ والدصاحب کی وفات کے بعد میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری کرکے گھر چلا رہا تھا، میرے دو چھوٹے بھائی اور ایک بہن ہے، مجھے ایک دن پیٹ میں بہت تکلیف ہوئی تو مقامی ڈاکٹرز نے بتایا کہ تمہارے گردے خراب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مجھے انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزیزز پشاور ریفر کر دیا، وہاں پیتھالوجی کے ڈاکٹر پروفیسر ملک زیب خان اور ڈاکٹر شگفتہ ناصر پرویز صاحبہ نے میرا علاج شروع کیا، ایک سال بعد تکلیف بڑھ جانے کے بعد مجھے مہینے میں چار بار ڈیلائسز کرانے کی ہدایت کی گئی ، میرے پاس جو جمع پونجی تھی وہ ختم ہو چکی ہے، بہن ایک پرائیویٹ اسکول میں جاب کرنے لگی ہے جس سے وہ دوسرے دو چھوٹے بھائیوں کی کفالت کر رہی ہے، میری یہ بہن مجھے اپنا ایک گردہ دینے کو تیار ہے، اس کا گردہ میچ بھی کر گیا ہے، پشاور میں گردہ ٹرانسپلانٹ کی کوئی سہولت نہیں، مجھے بتایا گیا ہے کہ تمہیں اس کیلئے اسلام آباد یا کراچی جانا پڑے گا ، کیا کوئی دردمند میری مدد کو آئے گا؟ ناصر خان سے رابطہ اس موبائل نمبر پر ہو سکتا ہے۔۔ 03085895077…