تلاش تو واقعی ایک لاش کو کیا جا رہا ہے لیکن لاش کس کی ہے؟ اور تلاش کون کر رہا ہے؟ یہ ابھی صیغہ راز میں ہی رہنے دیا جائے۔۔ہاں! البتہ ہم آپ کو یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ اس لاش کو نہ تو پولیس ڈھونڈھ رہی ہے نہ کوئی اور تفتیشی یا رضاکار ادارہ۔ اورنہ ہی عام لوگوں کو اس میلے کچیلے ہڈیوں کے ڈھانچے میں کوئی دلچسپی ہے،جو اچانک گم ہو گیا ہے، اگر یہ تشہیر کر دی جائے کہ اس گمشدہ ڈھانچے کے اندر اکیس ارب ڈالرز چھپے ہوئے ہیں تو کئی اس کی تلاش میں نکل پڑیں گے، ہمارے ہاں بڑی بڑی کہانیاں جنم لیتی ہیں مگر افسوس کہ نہ کوئی کرائمز رپورٹر نہ کوئی کلچرل رپورٹر اور نہ ہی کوئی انوسٹیگیٹو متحرک ہوتا ہے ۔ہم اس وقت جس لاش کی تلاش میں ہیں وہ کسی قبر میں دفنائی گئی نہیں ، ایک چلتی پھرتی لاش تھی جسے لوگ کئی سالوں سے دیکھتے چلے آ رہے تھے، اب اس لاش کو تلاش کر رہی ہے خود وہی لاش جو اچانک لاپتہ ہو گئی ہے، گمشدگی سے پہلے ہم بھی اس بولتی اور حرکت کرتی ہوئی لاش سے کئی بارملے تھے،اس لاش کو انصاف کی تلاش تھی، ہم نے اسے بہت آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ زمین میں اتر جائے۔مگر وہ کہتی ، جب میرے ڈھانچے کا چلتے پھرتے انسانوں کے درمیان گزارہ ہو رہا ہے تو کیا ضرورت ہے کسی قبرستان کے سوراخ میں گھس جانے کی۔میری تو یادداشت بھی ختم ہوتی چلی جا رہی ہے، اگر قبر میں فرشتے گھس آئے اور کرنے لگے حساب کتاب اور سوال جواب، تو میں بدحواس ہوکر کہیں پھر نہ سڑکوں پر آ جاؤں، لوگ اب تو مجھے نظر انداز کر ہی رہے ہیں لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ میں قبر کا راستہ دیکھ کر پھر ان کے درمیان لوٹ آئی ہوں تو وہ مجھ سے خوفزدہ ہونے لگیں گے، اس طرح میری وجہ سے گلیاں بازار سنسان ہوگئے تو طاقتور لوگ مجھے جکڑ کر پھر پاگل خانے چھوڑ آئیں گے۔ چار پانچ ماہ پہلے روحی بانو کی گمشدگی کی افواہ پورے شہر میں پھیل گئی تھی، اس گمشدگی کی خبر میڈیا کی زینت بھی بنی، ایم ایم عالم ر وڈ پر روحی بانو کے ویران گھر کے قریب ہی رہنے والی ان کی بہن نے اس وقت خود میڈیا سے رابطہ کیا اور بتایا کہ روحی بانو بخیریت اور محفوظ ہاتھوں میں ہیں، بہت سارے لوگوں کو روحی بانو کی بہن کا یہ بیان ہضم نہیں ہوا تھا، لوگ کہتے ہوئے سنے گئے تھے کہ جو روحی بانو کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکتے تھے وہ اسے کیسے نا معلوم محفوظ ہاتھوں میں لے گئے ؟ یہ خدشات سو فیصد درست تھے، روحی بانو کو کسی قسم کی کوئی بیماری لاحق نہ تھی،اندھے خیالات تھے، بھیانک خواب تھے، سوچیں تھیں،کچھ یادیں تھیں اور چند آنسو تھے جو اس کی آنکھوں میں پچھلے کئی سالوں سے ٹھہرے ہوئے تھے، روحی بانو کی پراسرار گمشدگی کے چار چھ ہفتوں بعد اس کی بہن پھر نمودار ہوئی اور بیانیہ دیا کہ روحی بانو کا ترکی کے ایک نجی اسپتال میں انتقال ہو گیا ہے جہاں وہ زیرعلاج تھی، یہ بیانیہ چند لوگوں کو فون کرکے جاری کیا گیا، اس میں یہ بھی کہا گیا کہ روحی کہ میت کی واپسی کیلئے حکومت انتظامات کرے،ہمارے دوستوں نے پہلے کی طرح دوسرا بیانیہ بھی سنا افسوس کیا۔اس کی یادیں تازہ کیں اور پھر سب اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔۔۔۔۔اف کتنا بے حس ہے یہ ہمارا معاشرہ، جہاں لوگوں سے پہلے لوگوں کی روایات اور وضعداریاں قبروں میں اتر چکی ہیں۔۔۔۔۔ کسی نے کچھ سوچا نہ کسی نے کچھ سمجھا، کسی کے دل نے کام کیا نہ کسی کے دماغ نے یہ سوچا۔۔۔۔ کیا یہ سب کچھ جو کہا جا رہا ہے سچ ہے یا کوئی ڈرامہ۔۔ وہ ڈرامہ جس سے روحی بانو کو مائنس کر دیا گیا ہے۔۔ ٭٭٭٭٭ اب وہ سوال ہیں جو روحی بانو کی بہن کی طرف سے دیے گئے بیانیہ سے اٹھتے ہیں،،،،(1) کیا روحی بانو کا شناختی کارڈ بنا ہوا تھا؟ اگر بنا تو کب؟اورکس نے بنوا کر دیا؟(2)اس چلتی پھرتی لاش کو علاج کیلئے استنبول کون لے کرگیا؟ ایک لاش کے علاج کیلئے کثیر سرمایہ کس نے لگایا؟(3) روحی بانو کاپاسپورٹ کب بنا اور کس نے بنوا کر دیا؟(4) بیرون ملک علاج کیلئے کس ڈاکٹر یا اسپتال نے ریفر کیا؟(5) بیرون ملک علاج کیلئے اسپتال میں بکنگ کس نے کرائی، اس اسپتال نے علاج کا کیا تخمینہ بنایا؟(6)ترکی لے جانے کیلئے روحی بانو کا ہوائی ٹکٹ کس ایجنسی سے لیا گیا؟(7)وہ آدمی جو روحی بانو کو ترکی لے کر گیا تھا، کہاں ہے؟ جس نے اتنے زیادہ اخراجات کئے وہ اس کی میت کو واپس پاکستان کیوں نہیں لایا؟ (8) روحی بانو کی بہن کی اس اپیل کے بعد کہ حکومت روحی کی میت واپس پاکستان لائے، متعلقہ حکومتی اداروں اور ترکی میں پاکستانی سفارتخانے نے کیا اقدامات کئے؟اور کیا پاکستانی حکومت نے اپنے سفارتخانہ سے یا سفارت خانے نے حکومت سے اس بارے میں باہم رابطہ کیا؟ روزنامہ نائنٹی ٹو میں تین چار ہفتے پہلے بھی ایک کالم لکھا گیا تھا جس پر بے شمار لوگوں نے اس بے مثل اداکارہ کی موت کے بیانیہ پر تبصرے کئے اور اپنی آرا سے ہمیں نوازا، زیادہ تر قارئین کا خیال ہے کہ روحی بانو کا لاہور میں ہی انتقال ہوا ہوگا اور انہیں خاموشی سے دفنا دیا گیا ہوگا ،اس کی تدفین کے بعد اس کی جائیداد کی وراثت حاصل کرنے کے لیے ترکی میں علاج کی کہانی بُنی گئی، ان لوگوں نے یہ رائے شاید اس لئے بھی دی ہے کہ روحی بانو اپنے ہوش و حواس میں آن کیمرہ یہ بیان دے چکی ہیں کہ جائیداد پر قبضے کیلئے انہیں قتل کیا جا سکتا ہے، روحی بانو نے اپنے جواں سال بیٹے اور ماں کی موت کو بھی سوچا سمجھا منصوبہ قرار دیا تھا۔۔۔ لیکن ان سب حالات میں ہماری گزارش یہ ہے کہ متعلقہ ادارے ہی اس کہانی کا پوسٹ مارٹم کریں، انصاف، انصاف کے اداروں کی طرف سے ہی ملنا چاہئیے۔ ٭٭٭٭٭ روحی بانو کی موت کے حوالے سے تعزیتوں اور تبصروں سے لبریز ہمیں بڑی تعداد میں آپکی ای میلز اور میسیجز موصول ہوئے ہیں تمام لوگوں کے مضامین اور ان کے ناموں کو اس کالم میں جگہ دینا تو ممکن نہیں تاہم ہم کچھ ساتھیوں کے جذبات آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں ٭٭٭٭٭ لندن سے رخشندہ رخشی لکھتی ہیں،،،، روحی بانو سے کسی بھی طور وابستہ کوئی بھی شخص اس کہانی پر یقین نہیں رکھتا جو روحی کی بہن سب کو سنا رہی ہیں، اس سارے معاملے کی وسیع پیمانے پر تفتیش کی جانی چاہئیے، پاکستان اگر صرف سیاستدانوں،وڈیروں،سرمایہ داروں اور ان کے ایجنٹوں کا ملک نہ ہوتا تو روحی بانو جیسی ایک بھی عورت بے موت نہ مرتی۔۔۔ کراچی سے سینئر جرنلسٹ امجد بشیر کہتے ہیں کہ اگر صرف ایک کال استنبول میں پاکستان کی ایمبیسی میں کر لی جاتی تو معاملہ حل ہوجاتا۔۔۔۔۔۔۔ سورج بابا ہماری شو بز انڈسٹری کا ایک بڑا نام ہیں، دکھتے تو ہیں بہت سلم اور اسمارٹ مگر اللہ نے انہیں دس عقلمندوں سے بھی بڑا دماغ دیا ہے، روحی بانو کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہئیے کہ روحی بانو کی کوٹھی کو قومی تحویل میں لے کر وہاں روحی بانو اسکول آف ایکٹنگ قائم کر دیا جائے۔