بائیس فروری کو کراچی کے ایک قبرستان کے قریب سے نامعلوم جوان سال لڑکی کی لاش ملی، لگتا تھا چوبیس پچیس سال کی اس بچی کو کوئی مار کر لاش یہاں پھینک گیا ہے، جسم پر نہ خون کے دھبے تھے اور نہ ہی کسی قسم کے تشدد کے آثار، لاش کو ممکن ہے قبرستان کے قریب اس نیت سے پھینکا گیا ہو کہ شاید کوئی خدا ترس اسے خاموشی سے دفنا دے،یہ ممکن تھا کہ ایسا ہو بھی جاتا، کیونکہ ہمارے ملک میں پولیس کا وطیرہ ہے کہ اس کو کسی جرم کی اطلاع دی جائے تو وہ سب سے پہلے اسے ہی گرفتار کرکے اسی سے تفتیش شروع کر دیتی ہے اور بہت آگے کی مخلوق ہے جو بغیر ثبوت کے اور بغیر شہادتوں کے پولیس کی جانب سے ملزم قرار دیے جانے والوں کو سزائے موت تک سنا دیتی ہیں، کہتے ہیں کہ خون بولتا ہے، قتل کبھی چھپتا نہیں ہے، لیکن یہ مقولہ پاکستان میں لاگو نہیں ہوتا، یہاں تو مختلف حادثات میں مارے جانے والے درجنوں افراد کو روزانہ نامعلوم قرار دیکر قبرستانوں کے کھڈوں میں بغیر کفن، بغیر نماز جنازہ پھینک دیا جاتا ہے، نامعلوم لڑکی کی لاش برآمدگی کے اس کیس نے ٹھیک اٹھارہ دن بعد ڈرامائی رخ اختیار کرلیا جب اسکی شناخت ہوگئی، لڑکی کی شناخت ارباب شفیق کے نام سے ہوئی جو اداکارہ اور ماڈل بننے کے شوق میں گھر سے نکل کر شو بز کی اس چکا چوند دنیا میں داخل ہوئی تھی جہاں کی تیز روشنیوں میں کوئی کسی کا اصل چہرہ نہیں دیکھ پاتا،اس نے اپنی اصل دنیا کے ساتھ اپنا اصل نام بھی تیاگ دیا تھا، ماڈلنگ کی دنیا میں اسے ہانی زیدی کے نام سے پہچانا جاتا تھا، آتش شوق میں گھروں سے باہر قدم رکھنے والی اس جیسی لڑکیوں کو کھانے کیلئے روٹی بھی چاہئیے ہوتی ہے، میک اپ کے سامان اور پہننے کے لیے جدید ملبوسات کے پیسے بھی درکار ہوتے ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ راتوں کو سونے کیلئے جگہ کی تلاش بھی ہوتی ہے، روشنیوں سے جھلمل کرتے بڑے شہروں میں شکرے بھی بہت ہوتے ہیں جو ایسی بھولی لڑکیوں کو شہرت اور دولت کے سپنے دکھاتے ہیں اور ان کی ساری ضرورتیں بھی پوری کرتے ہیں، یہ شِکرے ان بچیوں کے کفیل اور وارث بن جاتے ہیں، انہیں ساتھ لے کر پروڈکشن ہائوسز کے چکر کاٹتے ہیں، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز سے ملاقاتیں کرواتے ہیں، یہ الگ بات کہ ان میں سے کئی نام نہاد ڈائریکٹر، پروڈیوسر صرف تماش بین ہوتے ہیں اور اکثریت کا فلم ،ڈرامہ۔ چینلز سے دور دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا، رنگوں سے بھری ہوئی اس کھوکھلی دنیا میں عمر نام کا کوئی نوسر باز اسے ٹکر گیا تھا، جس نے اس سے محبت کا ڈرامہ بھی رچایا تھا، مرنے والی اسے پیار سے ڈان کہہ کر مخاطب کرتی تھی۔۔ وہ آگے بڑھنے کیلئے نہ جانے کتنی دشوار سیڑھیاں چڑھتی رہی کہ اسی دوران وہ حاملہ ہوگئی، قلاش نوسر باز اپنے گناہ چھپانے کیلئے اسے ایک اپنے جیسی جعلی نرس کے پاس لے گئے،اس عطائی ڈاکٹر نے لڑکی پر نہ جانے کیا کیا تجربات کئے کہ وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ مردہ لڑکی کے دونوں ہاتھوں پر انجکشن لگانے کے ایک درجن سے زیادہ نشانات تھے،جس نوسر باز آدمی کے ساتھ وہ رہ رہی تھی ان نے اسے شادی کا جھانسہ بھی دے رکھا تھا،اسے کمائی کا ذریعہ بھی بنا رکھا تھا، وہ جو پیسے جیسے بھی کماتی تھی، ان سے اپنے جہیز کا سامان بھی خریدتی تھی اور یہ سامان عمر نامی اس شخص کی بہن کے گھر رکھوایا جاتا تھا، کیوں؟ میرے خیال میں اس کہانی کا فالو اپ کیا جائے تو بہت کچھ سامنے آئے گا اور بے شمار ایسی لڑکیوں کی مدد بھی ہوگی جو سوچے سمجھے بغیر، کسی ہوم ورک اور اسٹڈی کے بغیر اندھیروں میں گم ہوجاتی ہیں۔ میں نے اس بد قسمت اور بد نصیب لڑکی کی جو تصاویر دیکھی ہیں ان میں وہ انتہائی جاذب نظر دکھائی دیتی ہے اور عمر بھی بہت تھوڑی محسوس ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ سات سال پہلے وہ طلاق لے چکی تھی، مرنے سے گیارہ دن پہلے وہ اومان سے واپس آئی تھی، یقینا کوئی اسے شوٹ کیلئے یا شوٹ کے بہانے باہر لے گیا ہوگا، پولیس کو اس کا اتا پتا اس کے موبائل پر آنے والی آخری کال سے چلا، ورنہ یہ کہانی سامنے ہی نہ آتی۔ ٭٭٭٭٭ واقعہ ہے 24ستمبر 2003ء کی صبح کا۔ لاہور کے علامہ اقبال ٹاؤن میں ایک مشہورزمانہ 55 سالہ عورت کو اس کی جواں سال بیٹی،دو نواسوں ،ایک مہمان اور تین ملازموں سمیت قتل کر دیا گیا تھا، قاتل پیشہ ور اور مشاق تھے، تمام آٹھ افراد کے سروں میں گولیاں ماری گئی تھیں، اس کی قتل ہونے والی بیٹی مصری رقاصاؤں جیسی لگتی تھی۔علامہ اقبال ٹاؤن میں سات دیگر افراد کے ساتھ قتل کی جانے والی یہ عورت خانم کے نام سے پہچانی جاتی تھی،،وہ بیس سال کی عمر میں پشاور سے لاہور آئی تھی، فلم ایکٹریس اور گلوکارہ بننے، ایس ایم یوسف کی فلم،اولاد، میں اسے پہلی بار اچھا رول ملا تھا،پشتو فلموں میں اسے نہ صرف بہت کام ملا، بلکہ خود اس نے بے شمار پشتو فلمیں پروڈیوس اور ڈائریکٹ کیں، ایک اردو فلم ’’جینے دو‘‘ بھی بنائی، پشتو فلم ،، یوسف خان شیر بانو ،، میں اس کا کردار بہت اچھا تھا، بحیثیت اداکارہ اس کی آخری فلم، مہندی والے ہتھ ،، تھی، خانم نے باری اسٹوڈیوز میں نئے چہروں کو ایکٹنگ سکھانے کیلئے ایک اکیڈمی بنا رکھی تھی۔۔۔اس کے علاوہ موڑ سمن آباد کے قریب ایک۔سیاسی اور سماجی دفترکھول رکھا تھا، جس پارٹی کی بھی حکومت ہوتی وہ اسی پارٹی کا پرچم گھر کی چھت پر لہرا دیتی اور خود کو اس پارٹی کی علاقائی صدرقرار دے دیتی، اس کا کہنا تھا کہ وہ لڑکیوں کو وہاں دست کاری سکھاتی ہے، اس دفتر میں جو دراصل کئی کمروں پر مشتمل دو منزلہ کوٹھی تھی، ایک وسیع تہہ خانہ بھی تھا، جہاں بہت ساری لڑکیاں رکھی جاتیں، اس ڈیرے پر ہر دوسرے تیسرے مہینے تھانہ نواں کوٹ پولیس چھاپہ مارتی، درجنوں لڑکیاں برآمد کی جاتیں۔ اخبارات میں نقاب اوڑھے ان کی تصاویر چھپتیں، اور پھر کسی کارروائی کے بغیر ہی مک مکا ہو جاتا، جب کسی خاص مہمان کو مدعو کیا جاتا تو ایک بڑے کمرے میں اس کے سامنے لڑکیوں کی لائن لگا دی جاتی، فیصلہ مہمان پر چھوڑ دیا جاتا کہ وہ کس کو یا کس کس کو پسند کرتا ہے، یہ ہمدرد عورت کبھی کبھی ایسا بھی کرتی کہ کسی اہم سماجی یا سیاسی شخصیت کو بلوا کر انہی قیدی لڑکیوں کے ہاتھوں میں سلائی کڑھائی کے آلات یا کپڑے سینے والی مشینیں پکڑا دیتی،خانم کی قید میں یہ لڑکیاں وہ ہوتی تھیں جو فلموں میں کام کرنے کے جنون میں گھروں سے بھاگ کر اسٹوڈیوز کے دروازوں تک پہنچتیں اور پھر خانم کے کارندے انہیں اچک لیتے،ماں، خانم کا شاید تکیہ کلام تھا، وہ کسی کو بھی فون کرتی تو آغاز ہی اس طرح کرتی،، بیٹا، میں ماں بول رہی ہوں، اس کے لہجے میں بہت اپنائیت ہوتی، وہ اپنے زیر قبضہ لڑکیوں کو بھی دوسروں کے سامنے بیٹی ہی کہہ کر بلاتی ۔آٹھ افراد کے اس اجتماعی قتل کی تفتیش میں ایک پہلو یہ سامنے آیا تھا کہ اس کے زیر قبضہ ایک لڑکی کے لواحقین اپنی بچی کی واپسی چاہتے تھے،خانم نے انکار کر دیا ، اور انہی لوگوں نے خانم کے پورے گھرانے کو قتل کیا۔ وہ ایسی عورت تھی جو گھروں سے بھاگی ہوئی لڑکیوں کو کھانا کھلاتی تھی، ان کے لباس کا دھیان رکھتی تھی، انہیں سونے کے لئے چھت فراہم کرتی تھی، اپنی پشتو فلموں میں ان لڑکیوں کو کیمرے کے سامنے لا کر ان کی آتش شوق بھی بجھا دیا کرتی تھی، کچھ لڑکیاں مشہور بھی ہو گئی تھیں ، بہت سارے شرفاء بھی اسے ماں ہی کہتے تھے، اس کی دریا دلی کے معترف تھے، اسے بڑے بڑے لوگوں کی دعوتوں میں مدعو کیا جاتا تھا، وہ بہت سارے بڑے لوگوں کے نزدیک ایک بڑی عورت تھی، اس جیسی بڑی عورتوں کی تعداد آج ہزاروںمیں ہے،جو معاشرے میں شاندار خدمات انجام دے رہی ہیں اور داد پا رہی ہیں۔