گزشتہ تین چار روز میں ایک بار پھر شہر اقتدار اسلام آباد اور اس کے گردو نواح میں تھا۔ میں نے وہاں محسوس کیا کہ معیشت اور وقت دونوں تیزی سے ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے میری بڑی دلچسپ ’’فسٹ ہینڈ انفارمیشن‘‘ تک رسائی ہوئی جسے میں اپنے قارئین سے شیئر کرنے کے بارے میں ذہن بنا چکا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی کالم لکھتے ہوئے میں بالعموم کال اٹینڈ نہیں کرتا۔ تاہم ایک پرانے دوست کا نام اسکرین پر دیکھ کر میں نے کال وصولی کا بٹن آن کر دیا۔ دعا سلام کے بعد میں نے استاد ابراہیم ذوق کا شعر پڑھا: اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے بے تکلف دوست کہنے لگا‘حسین! ہماری جان پر بنی ہے اور تمہیں شاعری سوجھ رہی ہے۔ عرض کیا خدا خیر کرے کیا ماجرا ہے؟ دوست کہنے لگا ذرا غور سے ہمارا قصہ درد سنو۔ ہم گزشتہ 30گھنٹوں سے بغیر بجلی کے لاہور میں بیٹھے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے گرمی سے بلبلا رہے ہیں‘ فریج‘ اے سی اور فریزر سب بند ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ نے واپڈا والوں کو نہیں بلایا دوست کہنے لگا ذرا صبر سے ساری تفصیل سنو۔ قارئین ! میرا یہ دوست کسی کچی یا نیم پختہ آبادی کا رہنے والا نہیں۔21ویں گریڈ سے ریٹائرڈ یہ افسر اعلیٰ لاہور کی سب سے پوش آبادی ڈی ایچ اے کا رہائشی ہے۔ اس دوست کے دو تین بیٹے بھی اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ دوست سریس بیمار بھی ہے۔ اس کے صاحبزادوں نے کہا ابو! آپ فکر نہ کریں ہم ابھی بجلی ٹھیک کرا لیتے ہیں انہوں نے واپڈا والوں کو فون کیا تو بڑی دیر کے بعد کسی لائن مین نے رسیور اٹھایا۔ دوست کے بیٹے مرتضیٰ نے اسے کہا کہ تین چار گھنٹوں سے بجلی نہیں۔ مہربانی کر کے اسے ٹھیک کریں۔ اس نے کہا سر!شہر میں 250فیڈر ٹرپ ہو چکے ہیں کچھ کہہ نہیں سکتا کہ آپ کی باری کب آئے گی۔ نوجوان افسر نے پہلے سختی اور پھر نرمی سے منت سماجت کی تو لائن میں نے کہا اچھا میں کچھ دیر میں آتا ہوں۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد لائن مین آیا تو اس نے کچھ تاروں کو ہلا جلا کر دیکھا اور پھر کہا کہ یہ مسئلہ واپڈا کا نہیں ڈی ایچ اے والوں کا ہے۔ آپ انہیں بلائیں۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ مرتضیٰ نے ڈی ایچ اے کے دفتر شکایت کو فون کیا اور اپنی شکایت درج کروائی۔ شکایت درج کروانے کے بعد جان لیوا انتظار کی گھڑیاں شروع ہو گئیں۔ خدا خدا کر کے ڈی ایچ اے ورکرز آئے انہوں نے ماہرانہ معائنے کے بعد کہا کہ یہ کام تو واپڈا کا ہے۔ ہمارا نہیں۔ مرتضیٰ نے انہیں بتایا کہ واپڈا والوں نے اچھی طرح دیکھ کر حتمی رائے دی ہے کہ یہ ڈی ایچ اے والوں کا مسئلہ ہے ہمارا نہیں۔ میرے دوست نے بیٹوں سے کہا کہ یار! مجھے کسی پرانے دوست سے بات کر لینے دو۔ نوجوانوں نے کہا آپ فکر نہ کریں ہم خود ہی کچھ کر لیں گے۔ اس دوران مرتضیٰ نے کسی نہ کسی طرح واپڈا اور ڈی ایچ اے دونوں محکموں کے ’’فنی ماہرین‘‘کو اکٹھے بلا لیا۔ دو طرفہ مشترکہ معائنے کے بعد واپڈ اور ڈی ایچ اے کے ورکرز نے کہا کہ یہ زیر زمین کیبل کا مسئلہ ہے جو آپ کو خود بدلوانا پڑے گی۔ اس دوران رات نے ڈیرے ڈال دیے۔ گھر والوں کی درخواست پر اتنا ہوا کہ واپڈا والوں نے کہا کہ تھری فیز کے بجائے صرف ون فیز کام کرے گا دوست نے کہا کہ چلیں ون فیز ہی چلائیں باقی صبح دیکھیں گے۔ ون فیز بھی چند گھنٹے ہی چلا اور فجر سے پہلے ہی مکمل بجلی پھر چلی گئی۔ خدا خدا کر کے صبح ہوئی تو 21ویں گریڈ سے ریٹائرڈ افسر نے بجلی کی درستگی کے لئے کمان خود سنبھال لی۔ دوست نے واپڈا میں اپنے ایک جاننے والے چیف انجینئر کو فون کیا اس نے بات سننے کے بعد کہا کہ آپ کو ڈی ایچ اے میں زیر زمین کیبل خود بدلوانا ہو گی۔ آج کل ہم پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں اس کے بعد دوست نے سابق جرنیل کو بھی فون کیا جو کبھی واپڈا کا ایڈوائزر رہا تھا۔ جرنیل نے بھی ادھر ادھر گھوڑے دوڑائے مگر کچھ کامیابی نہ ہوئی۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ چند گھر چھوڑ کر ایک ٹھیکیدار سے نوجوانوں نے پوچھا تو اس نے کسی مارکیٹ کا پتہ بتلایا جہاں سے آپ چالیس پچاس ہزار کی تار خرید کر لائیں گے اور اپنے ذرائع سے ڈلوائیں گے۔ ستم بالائے ستم جب ریٹائرڈ دوست نے 60ہزار کا چیک کاٹ کر اپنے بیٹے کو دیا تو بنک والوں نے کہا کہ تازہ ہدایات کے مطابق آپ کو اپنے ابا کے زندہ ہونے کا تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ لانا ہو گا۔ قارئین کرام ! یہ 1929ء میں ’’سودیشی ریل‘‘ والا ہندوستان نہیں بلکہ 21ویں صدی کا ایٹمی پاکستان ے جس کو ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کے لئے رات دن وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور ان کے وزیر مشیر پرانے پاکستان والوں کو برا بھلا کہتے اور مورد الزام ٹھہراتے ہیں مگر کوئی سنجیدہ پلاننگ ہے اور نہ ہی اس کا ارادہ دکھائی دیتا ہے۔اخباری خبر ملاحظہ کیجیے ’’17گھنٹے بارش‘ لاہور پانی میں ڈوب گیا‘ نظام زندگی مفلوج‘ بجلی بند‘ چھت گرنے سے بچی جاں بحق‘ نشیبی علاقے تالاب کا منظر پیش کرنے لگے۔250بجلی فیڈر ٹرپ۔ لکشمی چوک میں 3فٹ پانی کھڑا۔ غالباً گزشتہ برس انہی دنوں عمران خان کا اقتدار سے پہلے لکشمی چوک سے گزر ہوا تو انہوں نے وہاں کھڑا پانی دیکھ کر خادم پنجاب شہباز شریف پر خوب تیر اندازی کی۔ مگر اس معاملے میں کوئی فکر مندی یا منصوبہ بندی سامنے نہیں آئی۔جناب عمران خان سابقہ حکمرانوں کو برا بھلا کہنے سے فرصت پائیں تو عوام الناس کی طرف دیکھیں۔ اس موقع کے لئے جمال احسانی نے کہا تھا: اس نے بارش میں بھی کھڑکی کھول کے دیکھا نہیں بھیگنے والوں کو کل کیا کیا پریشانی ہوئی پانی میں ڈوبتے لوگوں‘ بجلی سے محروم شہریوں اور ٹریفک کے درہم برہم نظام کے موقع پر تھوڑی دیر کے لئے عثمان بزدار منظر عام پر آئے تو انہوں نے یہ بیان دیا ’’امین ہونے کے دعویدار بے نقاب ہو چکے ہیں۔منصوبوں کے نام پر کرپشن کا بازار گرم کیا گیا‘‘جبکہ آج کی حقیقت حال یہ ہے کہ واسا نے مئی میں گرانٹ مانگی تھی تاکہ بارشوں سے قبل نالوں کی باقاعدہ صفائی کی جائے مگر بارش میں شہر ڈوب گیا اور لاہور میں واسا کو تاحال نئے پاکستان کی پنجاب حکومت سے گرانٹ نہیں ملی۔ امریکہ کے کئی شہروں میں سیلابوں کا یوں رخ موڑا گیا کہ بستیاں گل و گلزار اور تجارتی مراکز بن گیں۔ یہاں بھی یہ سب کچھ ہو سکتا ہے مگر اس کے لئے حکمران اور سباست دان سنجیدہ نہیں۔ کالم مکمل ہوا۔ اب اپنے دوست کی خبر لیتا ہوں کہ اس کی پوش بستی میں 36گھنٹوں کے بعد بجلی آئی یا نہیں۔