ابھی دعا علی کا سندھ حیدر آباد سے فون آیا کہ سر! کیا لاہور میں موسلا دھار بارش ہورہی ہے۔ میں نے کہا ’’دعا، آپ دعا کریں کہ یہ رحمت زحمت نہ بنے۔‘‘ میں اسے کیا بتاتا کہ برسات کی پہلی ہی بارش نے لاہور ڈبو دیا ہے۔ مجھے یہ منظر اپنی آنکھوں سے نہ صرف دیکھنا پڑا بلکہ میں اس کا باقاعدہ حصہ بنارہا۔ ہوا یوں کہ پرنسپل صاحب عبدالطیف عثمانی کا فون آیا کہ آپ الیکشن ٹریننگ کے سلسلہ میں دس بجے گلشن راوی گرلز کالج ضرور چلے جائیں۔ اب بتائیے حکم حاکم مرگ مفاجات، پرنسپل صاحب خود فون کریں تو کون انکار کرے۔ میں نے گاڑی نکالی۔ بیگم صاحبہ مجھے روکتی رہیں مگر ایک فرض ہمارے سر پر سوار کردیا گیا تھا۔ باہر نکلے تو سب کچھ جل تھل تھا۔ ہر طرف دریا اور نہریں رواں۔ آپ یقین مانیے ہمیں وینس شہر یاد آیا کہ مرچنٹ آف وینس میں پڑھا کہ وہاں عمارتوں کے اردگرد سڑکیں نہیں، پانی کی نہریں ہیں۔ ہمیں ڈر تھا کہ گاڑی بند ہو جائے گی مگر بعض اوقات بندہ فرسٹریشن میں وہ غلطی بھی کرگزرتا ہے جس کا بھیانک انجام سامنے ہوتا ہے۔ ہم نے بھی پتہ نہیں کیوں ضد پکڑ لی کہ بس آج الیکشن ٹریننگ پر جانا ہے وگرنہ 25 جولائی کو ہونے والے الیکشن ہی نہیں ہوں گے۔ ہم نے اللہ کے سہارے بحرظلمات میں گھوڑے ڈال دیئے، یعنی گاڑی پانیوں کے سپرد کردی۔ دونوں اطراف میں کچھ گاڑیاں اور اکثر موٹرسائیکل بند پڑے تھے۔ وہ سب ہمیں دیکھ رہے تھے اور ہم گاڑی میں سہمے ہوئے آیت الکرسی پڑھ رہے تھے۔ جیسے تیسے ہم تیرتے ہوئے گلشن راوی گرلز کالج تک پہنچ گئے جو ایک گلی میں واقع ہے۔ ہمارے ذہن میں ایک خوف بجلی کے کوندے کی طرح آیا کہ اب ہماری گاڑی عین رستے میں بند ہوگی۔ ایک وقت آتا ہے جب شاعر نجومی بن جاتا ہے۔ آپ یقین مانیے کہ جو سوچا تھا یا جو ذہن میں آیا تھا ہو بہو اسی طرح ہوگیا۔ عین گلی کے بیچ گاڑی بند ہوگئی۔ گاڑی بے چاری کیا کرتی۔ میں نے دروازہ کھولا تو پانی گاڑی کے اندر گھس آیا۔ اب سیلاب کا گاڑی پر قبضہ تھا۔ سامنے کالج کے گیٹ پر بیٹھا چوکیدار بیچارا اپنی جگہ پریشان کہ راستہ بند ہوگیا۔ کچھ اور گاڑیاں ذرا سائیڈ پر ڈوبی ہوئی تھیں۔ آپ یقین کیجئے کہ مجھے اس وقت پتہ چلا کہ بے بسی کیا ہوتی ہے۔ گاڑی نہ آگے جا سکتی تھی اور نہ پیچھے۔ گھٹنوں سے اوپر تک پانی میں کھڑا تھا۔ وہ شعر تو آپ نے سنا ہوگا کہ کل رات ہجر یار میں رویا میں اس قدر چوتھے فلک پہ پہنچا تھا پانی کمر کمر چلئے آپ اتنا مبالغہ نہ بھی کریں مگر زمین پر پانی کمر کمر ہی تھا اور یہ بھی نہیں تھا کہ اب بارش تھم گئی تھی۔ میں نے پریشانی میں ادھر ادھردیکھا مگر سب بے دست و پا نظر آئے۔ بیچاری خواتین پروفیسر بھی گہرے پانی میں سے گزرتی ہوئی آ رہی تھیں۔ بعض کی گود میں بچے بھی تھے۔ ہم تو اپنا غم بھول گئے۔ ایک لمحے کو بھولا بسرا گانا بھی کان میں گونجا کہ ’’اے ابر کرم آج اتنا برس، آج اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں۔‘‘ مہربانی چوکیدار کی کہ اس نے ہمارے ساتھ گاڑی کو دھکا لگا کر ایک طرف کردیا اور ہم گدلے پانی سے گزرتے کالج میں داخل ہوئے۔ چند لوگ ہی پہنچ پائے تھے اور یقین مانیے یہ لوگ مجھے گوریلے لگ رہے تھے۔ وگرنہ یہاں اتنی بارش میں آنا ہرگز آسان نہیں تھا۔ شکر ہے جیسے تیسے کالج کی پرنسپل وہاں پہنچ گئی تھی۔ وہ خود بہت پریشان تھی۔ انہوں نے ملازموں کو بھیجا اور ہم گاڑی کو دھکا لگاتے ہوئے کئی فرلانگ کا دریا پار کرتے ہوئے خشک جگہ پر لے آئے۔ اللہ کا شکر بجا لایا۔ اس کے بعد کیا ہوا چھوڑیئے۔ اب بات یہ ہے کہ یہ تو آفات سماوی ہوتی ہیں اس میں قصور کسی کا نہیں۔ ٹریننگ دینے والے بھی تو انسان ہیں وہ بھی نہیں پہنچے تھے۔ گزارش میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ برسات میں موسم مزاج محبوب کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے لیے گلیوں محلوں میں واقع کالجوں اور سکولوں میں ٹریننگ کا بندوبست نہیں ہونا چاہیے۔ ایسی ایمرجنسی سے لوگوں کو بچانے کا کوئی طریقہ ہو کہ لوگوں کو اتنی خواری نہ ہو۔ یہ تو ہمیشہ ہوتا ہے کہ ایک بارش کے ساتھ ہی واسا کے سارے منصوبے برد بردر آب ہو جاتے ہیں۔ اب کے تو شہبازشریف بھی نہیں وگرنہ وہ تو اپنے لانگ شوز اور ہیٹ کے ساتھ پانیوں میں کھڑے نظر آ جاتے تھے۔ ایک خیال اس طرف جاتا ہے کہ بارش کا یہ پانی ہم محفوظ نہیں کرپاتے۔ اس کا رونا ہمیشہ سے رویا جاتا ہے۔ باہر سے ایک پارٹی آئی تھی جس نے ایک منصوبہ دینے کی کوشش کی مگر کسی نے ان کولفٹ تک نہ کروائی۔ اب چیف جسٹس صاحب اس حوالے سے متحرک ہیں تو انہیں چاہیے کہ ڈیمز کے ساتھ ساتھ اگر بارش کے پانی کو سٹور کرنے کی طرف پیش رفت کی جائے تو یہ ثمر بار ہو سکتی ہے۔ ان لوگوں کی بات اب سمجھ میں آنا شروع ہو گئی ہے کہ برسات کے موسم میں الیکشن نہیں ہونے چاہئیں۔ واقعتاً کچھ علاقے ایسے ہیں کہ جہاں بارش میں سب کچھ جامد ہو جاتا ہے۔ لاہور کا حال دیکھ کر بھی علاقوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حکومت کی تو پوری کوشش ہے کہ الیکشن ہو جائیں۔ عوام بھی چاہتے ہیں کہ نگرانوں کا جو تھوڑا سا دور ہے وہ عوام کے لیے عذا ب بن گیا ہے۔ پٹرول دو مرتبہ بڑھ چکا اور مہنگائی کا طوفان آ چکا۔ وہی گھسا گھسایا فقرہ بول رہے ہیں کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر تھا۔ بہرحال اتنی زبردست بارش میں جسے انگریزی میں Raining cats and dogs کہتے ہیں، وہ لوگ آرام سے ہیں جو گھر بیٹھے ہوئے آم چوس رہے ہیں۔ جن کی گاڑیاں پانیوں میں بند ہوئی پڑی ہیں وہ کیا کریں گے۔ اس کو تو مکینک بھی سٹارٹ نہیں کرسکتا۔ خیر زندگی میں یہ مشکل وقت بھی آتے ہیں۔ میں جیسے تیسے گھر پہنچا تو آگے سے بیگم کا کام شروع ہوگیا۔ آپ بھی کسی کی بات نہیں مانتے۔ میں نے کہا مانتا تو ہوں۔ پرنسپل عبدالطیف عثمانی کی بات مانی تو تھی۔ چلیے چھوڑیئے، آپ ہمیں فرض شناسی کی داد تو دیں۔ ہم آپ کو امیر خسرو کا ایک بہترین شعر سناتے ہیں۔ ابر باران و من و یار ستادہ بہ وداع من جدا گریہ کناں، ابر جدا، یار جدا یعنی میں محبوب سے وداع ہورہا ہوں۔ بادل برس رہے ہیں۔ میں الگ رو رہا ہوں، ابر الگ گریہ کر رہا ہے اور میرا یار بھی آنسو بہا رہا ہے۔ دیکھئے تو کیسا منظر ہے جیسے کسی کا گریہ اور بارش ایک ہو جائے۔ فاروق روکھڑی بھی یاد آ گئے: ہم تم ہوں گے بادل ہوگا رقص میں سارا جنگل ہوگا