14 مارچ کو پاکستان سمیت دُنیا بھر میں خواجہ غریب نواز، نائب رسول ؐ فی الہندحضرت مُعین اُلدّین چشتی ؒکے 807 ویں عُرس کی تقریبات کا آغاز ہُوا لیکن ، اُسی روز قومی اخبارات میں یہ خبر شائع ہُوئی کہ ’’ 22 سال بعد (1997ء کے بعد) وزیراعلیٰ پنجاب سردار محمد عثمان بزدار کی "Approval" (منظوری )سے لاہور کے علاّمہ اقبالؒ انٹرنیشنل ائیر پورٹ کے نزدیک بننے والے نئے ہوٹل کو "Alcohol" (شراب) فروخت کرنے کا لائسنس جاری کردِیا گیا ہے‘‘۔ خبر کے مطابق ماہ جنوری 2019ء میں ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب مسٹر اکرم اشرف نے وزیراعلیٰ صاحب کو یہ لائسنس جاری کرنے کی سفارش کی تھی۔ معزز قارئین!۔ ’’ 11 دسمبر 2018ء کو پاکستان تحریک ِ انصاف کے رُکن قومی اسمبلی (اور پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ) ڈاکٹر رمیش کمار نے پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے اپنی حکومت سے مطالبہ کِیا تھا کہ ’’ ہندو مذہب سمیت کسی بھی مذہب کے نام پر ، شراب کی فروخت پر پابندی کے سخت قوانین متعارف کرائے جائیں ‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کہ ’’ بدقسمتی سے ہندو مذہب کے نام پر کئی کاروباری لوگوںنے شراب فروشی کے لائسنس حاصل کر رکھے ہیں، جو ہمارے لئے ناقابلِ قبول ہیں‘‘۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ ہندو مذہب سمیت تمام مذاہب میں شراب نوشی/ شراب فروشی ، منع ہے‘‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ سردار محمد عثمان بزدار نے شاید اپنی ہی پارٹی (پاکستان تحریک انصاف) کے ہندو لیڈر کے اِس مطالبے پر توجہ نہیں دِی اور جنوری 2019ء میں مسلمانؔ ڈائریکٹر جنرل مسٹر اکرم اشرف کی سفارش پر ، کسی ’’ پیر بھگت شاہ‘‘ کے نام شراب فروشی کا لائسنس جاری کردِیا ؟ ‘‘۔ اِس کے بعد لاہور میں شراب فروخت کرنے والے ہوٹلوں کی تعداد پانچ ہو جائے گی‘‘۔ خبروں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’’ شراب فروشی کا لائسنس حاصل کرنے والے ’’ پیر بھگت شاہ‘‘ کے پاکستان کے مختلف ائیر پورٹس پر "Parking Stands"ہیں اور بہت سی دکانیں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ کیوں نہ نئی نسل کی معلومات میں اضافہ کرنے کے لئے بیان کردِیا جائے کہ ۔ پیر ؔ۔ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے کئی معنی ہیں ۔ جیسے بوڑھا ، بڑی عُمر کا آدمی، بزرگ، گُرو، مُرشد، ہادی، راہنما ، ولی، مُعمر ،شریروںؔ کا اُستاد۔ بھگت ؔ ۔ ہندی زبان کا لفظ ہے۔ اِس کے بھی کئی معنی ہیں ۔ جیسے مقدس ، پرہیزگار آدمی، زاہد ، عابد، گنڈے تعویذ کرنے والا ، بُھوت پریت اُتارنے والا اور ہندوئوں میں وہ فرقہ جو، لڑکوں کو سوانگ بھر کر تعلیم دیتا اور ناچتا گاتا ہے۔ کسی کو چھیڑنے یا ذلیل کرنے کو بھی ’’ بھگت بنانا‘‘ کہتے ہیں ۔ کسی اُستاد شاعر نے نہ جانے کِس خاتون کی نمائندگی کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … چھیڑوں کی بہت، ستائوں گی مَیں! خوب اُس کی ، بھگت بنائوں گی مَیں! …O… اب رہا فارسی زبان کا لفظ شاہ ؔ۔ اِس کے معنی ہیں بادشاہ ، صاحب، خدا وند، مالک، احتراماً سادات ؔ کو بھی شاہ ہی کہتے ہیں ، داماد کو بھی شاہ کہا جاتا ہے ۔ شطرنج کے ایک مُہرے کا نام بھی شاہ ہے جو جب مُہروں کا بادشاہ ہوتا ہے ۔ ہندو ساہو کار ، سرمایہ دار ، خاص طورپر سود خور بھی شاہؔ کہلاتے ہیں ۔ ہمارے یہاں درویشوں کوبھی احتراماً شاہ ہی کہا جاتا ہے ۔ بہرحال مَیں تو۔ پیر بھگت ؔشاہ سے بہت متاثر ہُوا ہُوں۔ مجھے تو، وہ مجھ سے بہت زیادہ بااثر ؔ اِنسان لگتے ہیں؟۔ فارسی کے معروف شاعر حافظ شمس اُلدّین محمد حافظ شیرازی ؔ(1315ء ۔1390ئ) نے ، جن کے دیوان ۔ دیوانِ حاؔفظ سے اُن کے چاہنے والے فال ؔ نکالتے ہیں، اپنے پیر صاحب کی ’’ شفقت ‘‘ کا تذکرہ کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … دوش، از مسجد ، سُوئے میخانہ آمد، پیر ما! چیست ، یارانِ طریقت ،بعد ازیں ،تدبیر ما! …O… یعنی۔’’ کل ( شب) ہمارا پیر مسجد سے میخانہ (شراب خانہ) کی طرف آگیا، یارانِ طریقت ؔ اِس کے بعدہم کیا تدبیر کریں؟‘‘۔ ہم مسلمانوں کے لئے شراب نوشی / شراب فروشی حرام ہے، لیکن ہمارے عُلماء ’’ شرابِ طہور ‘‘ کا اکثر تذکرہ کرتے ہیں جو ، جنت میں زاہدوں ، پرہیز گاروں اور نیکوں کاروں کو ملے گی ۔مَیںنہیں جانتا کہ ’’ مرزا اسد اللہ خان غالب نے کس زاہد ؔ کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … زاہد ؔ، نہ تُم پیو، نہ کسی کو پلا سکو! کیا بات ہے تمہاری، شرابِ طہور کی؟ …O… معزز قارئین!۔ میرے ایک مرحوم سرگودھوی شاعر ، سیّد ضامن ؔحیدری نے کہا تھا کہ … یوں تو پیتے ہیں ، ہزاروں اور بھی ! ایک ضامنؔ حیدری بدنام ہے ! …O… 1857ء کی جنگ آزادی کے دَوران انگریزی فوج کے ایک سپاہی نے مرزا غالبؔ کو پکڑ لِیا اور پوچھا کہ۔’’ کون ہو تُم ؟‘‘ ۔ تو اُنہوں نے کہا کہ ۔’’ آدھا مسلمان !‘‘۔ سپاہی نے پوچھا کہ ’’ وہ کیسے؟‘‘ ۔ تو غالبؔ نے کہا کہ ۔ ’’ مَیں شراب پیتا ہُوں، سُؤر کا گوشت نہیں کھاتا‘‘۔ پاکستان کے ایک سابق (مرحوم ) وزیراعظم ملک فیروزخان نون (1957ء ۔1958ئ) اپنی خُود نوشت میں لکھتے ہیں کہ ’’ مَیں انڈیا کا ہائی کمشنر بن کر، بحری جہاز سے لندن جا رہا تھا کہ قاہرہ سے ایک صاحب سوار ہوئے۔ وہ مِصر کے ہائی کمِشنر بن کر لندن جا رہے تھے۔ جب ہم کھانا کھانے لگے تو وہ"Pork" (سؤرکا گوشت) کھا رہے تھے۔ مَیں نے پوچھا۔ ’’ کیا آپ مسلمان ہیں؟‘‘ ۔ اْس نے کہا۔’’الحمدْ اللہ۔ میں مسلمان ہوں‘‘۔ مَیں نے پوچھا۔ ’’پھِر آپ "Pork" کیوں کھا رہے ہیں؟ ‘‘۔ تو انہوں نے جواب دِیا کہ۔’’اِس لئے کہ یہ قاہرہ میں نہیں مِلتا ‘‘۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) جب سیاست میں آئے تو، اُن کے مخالفین نے اُن پر شراب نوشی کا الزام لگایا ۔ جنابِ بھٹو نے کئی عام جلسوں میں کہا کہ ’’ ہاں ! ہاں ! ۔ مَیں شراب پیتا ہُوں ، غریبوںکا خون تو نہیں پیتا؟۔ اِس پر جلسہ گاہ میں موجود جیالے رقص کرتے ہُوئے یہ نعرہ لگایا کرتے تھے کہ …… ’’پی اوئے بھٹو پی، دیسی چھڈّ ،وَلیتی پی‘‘ …O… 7 مارچ 1977ء کے انتخابات سے پہلے حزبِ اختلاف کی سیاسی / مذہبی جماعتوں کے اتحاد ’’پاکستان قومی اتحاد ‘‘ (Pakistan National Alliance)کے دبائو میں آ کر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شراب پابندی لگا دِی تھی اور جمعتہ اُلمبارک کو ہفتہ وار تعطیل کرنے اعلان کردِیا تھا ۔ پھر بات آئی گئی ہوگئی۔ جنرل ضیاء اُلحق نے 5 جولائی 1977ء کو اقتدار سنبھالا تو، 1981ء کے اوائل میں میرے اُن سے تعلقات قائم ہوگئے۔ ایک دِن موصوف بڑے اچھے موڈ میں تھے کہ۔ مَیں نے اُن سے کہا کہ ’’ جنابِ صدر !۔ وطن عزیز میں شراب بنتی ہے ، امپورٹ اور سمگل ہو کر بھی آتی ہے ، چوری چھپے فروخت بھی ہوتی ہے، بہت سے غیر ملکی سفارت کار بھی اپنے کوٹے میں منگواتے ہیں ، شراب کی آمدن پر ٹیکس قومی خزانے میں جمع ہوتا ہے اور وہاں سے ارکان پارلیمنٹ کو تنخواہیں اور دوسری مراعات بھی ملتی ہیں ، کیا ایسا ممکن نہیں کہ ’’ جس طرح ہر سگریٹ کے پیکٹ پر لکھا ہوتا ہے کہ ۔’’ خبردار!۔ تمباکو نوشی مُضر صحت ہے ‘‘ تو، کیوں نہ وزارتِ مذہبی امور کی طرف سے شراب کی بوتل پر لکھ دِیا جائے کہ ۔’’ خبردار! ۔ شراب پینا حرام ہے‘‘ ۔ جو شخص اپنا ایمان خراب کرنا چاہے کر لے ؟ ‘‘۔ اِس پر صدر جنرل ضیاء اُلحق صاحب "Direct Dialling" سے گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی خان سے گفتگو کرنے لگے ۔ میری اُن سے ملاقات کا وقت ختم ہوگیا تھا۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے مختلف اِنسانوں کی ملاقاتوں کا کوٹہ مقرر کر رکھاہوتا ہے اور حکمرانوںکے اقتدار کا بھی کوٹہ ہی مقرر ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان پاکستان کے عوام کو ’’ریاستِ مدینہ ‘‘ کا خواب دِکھا رہے ہیں لیکن ’’ ریاست ِ مدینہ جدید‘‘ میں ، سردار عثمان بزدار اور ۔’’ پیر بھگت شاہ ‘‘ ۔قسم کے لوگوں کا کیا کام ؟۔ کئی سیاستدان اور کاروباری لوگ بھی تو’’ بگلا بھگت‘‘ کا کردار ادا کرتے ہیں ؟ اور لاہور تو ، حضرت داتا گنج بخش سیّد علی ہجویری ؒ کے نام پر داتا صاحبؒ کی نگری کہلاتا ہے ؟۔