مقبوضہ کشمیر میں سسکتی زندگی دم توڑنے لگی ہے۔ مسلسل کرفیو سے گھروں میں خوراک کی بھی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ اس صورتحال میں کشمیریوں کے جذبات ڈر اور خوف کے بجائے غصے میں تبدیل ہو رہے ہیں اور اس میں صرف اضافہ ہو رہا ہے۔مقبوضہ کشمیر کی بدترین صورتحال دنیا سے چھپانے کے لیے بھارت کی ناکام کوششیں جاری ہیں۔ سری نگر میں مظاہرین اور قابض فوج کے درمیان جھڑپوں کے بعد وادی اور دیگر علاقوں میں جنگ جیسی صورتحال ہے۔مقبوضہ کشمیر میں5اگست سے جولاک ڈائون شروع ہواتھاآج انیسویں دن میں داخل ہوچکاہے ۔شدیدترین کرفیو بدستورجاری ہے اس میں ڈھیل دینے کی تمام باتیں جھوٹ ہیں ۔لاک ڈائون اورمسلسل کرفیوکے نفاذ کے باعث خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے ۔گھروں سے مکینوں بالخصوص نوجوانوں کونکال کرجیلوں میں منتقل کیاجارہاہے۔ گورنرانتظامیہ ’’فوجی راج‘‘کے دوران 5اگست سے اس وقت تک دس ہزارسے زائدنوجوانوں کوگرفتار کیاگیاہے ۔ زیادہ تر افراد کو ریاست سے باہر منتقل کر دیا گیا کیونکہ ریاست میں حکومتی حراستی مراکز اور قید خانوں میں گنجائش باقی نہیں رہی تھی حتیٰ کہ جھیل ڈل کے اردگرد جتنے بھی ہوٹل ہیں وہ بھی اسیران سے بھر ے پڑے ہیں جن میں مشہور سنتور ہوٹل بھی شامل ہے ان ہوٹلوں میں بھارت نواز جماعتوں ’’جو ہمیشہ بھارتی ایجنٹ ثابت ہوئیں ‘‘کے سرگرم کارکنوں کومقید رکھاگیاہے جن میں نیشنل کانفرنس اورپی ڈی پی کے اراکین شامل ہیں۔ سری نگر میں مختلف جگہوں پر حراست میں لیے جانے والے کشمیریوں جن میں غالب تعدادنوجوانوں کی ہے کو پہلے سری نگر کی مرکزی جیل لے جایا گیا اور بعد میں انھیں فوجی طیاروں کے ذریعے ریاست سے باہر منتقل کر دیا گیا۔سری نگر کے فوجی ہوائی اڈے کے قریب رہنے والوں نے بتایا کہ رات کے وقت بے شمار فوجی طیاروں کی پروازیں ہوتی ہیں۔ جموں ریجن میں جہاں ہندئووں کی اکثریت ہے مواصلات پر عائد پابندیوں میں پچھلے دنوں جزوی طور پر ٹیلی فون سروس کھول دی گئی تھی۔لیکن محض چندگھنٹوں کے اندراندریہ سروس پھربندکردی گئی کیونکہ جموں میں موجود عالمی میڈیاکے ذریعے سے کشمیرکی صورتحال کے حوالے سے خبریں باہرجانے لگیں ۔واضح رہے کہ 5اگست سوموارکو نریندر مودی کی طرف سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے اعلان کے بعد سے تقریبا ًپوری ریاست پر غیر اعلانیہ کرفیو نافذ ہے اور ریاست کا پوری دنیا سے انٹرنیٹ اور فون کے ذریعے رابطہ منقطع ہے۔کشمیرکاسٹیٹس بدلنے کے یکطرفہ بھارتی فیصلے کے خلاف ممکنہ عوامی رد عمل کے خوف کے پیش نظر ہرگھرپرفوجی نرغہ ہے ۔ جموں اور سرینگر سے شائع ہونیوالے انگریزی رونامے کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھاسن کاکہناہے کہ مقبوضہ کشمیر میں1990ء کی طرح ذرائع ابلاغ پر سخت پابندیاں عائد اور مواصلاتی نظام معطل ہے ۔ نئی دہلی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کشمیرنے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ، انٹرنیٹ اور موبائل پر جزوی یا مکمل پابندیاں دیکھی ہیں لیکن 1990ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب لینڈ لائن فون بھی کام نہیں کررہے ،ہمیں براہ راست اپنے رپورٹرز سے پتا نہیں چل رہا مختلف علاقوں میں کیا ہورہا ہے اور دہلی کے اخبارات یا عالمی میڈیا پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے ۔1990اورآج کے حالات میں صرف یہ فرق ہے کہ اس وقت صحافیوں اور اخبار مالکان کو ہراساں کیا جاتا تھا اور اب ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے کہ میڈیا ہی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے ۔ علاوہ ازیں بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر میں صحافیوں پر پابندیوں کے حوالے سے دائر کی گئی انورادھا کی درخواست پر کوئی ہدایات جاری کرنے انکار کر دیا ۔ عالمی میڈیاکشمیرکومناسب کوریج دے رہاہے ۔مودی سرکار صرف مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کم کرنا نہیں چاہتی بلکہ پورے بھارت سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹانے کے درپے ہے۔امریکی میڈیا نے چونکا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے بھارت میں مسلمانوں کو دبانے کی گھناؤنی سازش کو بے نقاب کر دیا ہے۔ فاشسٹ نریندر مودی کی حکومت نازی ہٹلر کے ایک اور نظریے کو عملی جامہ پہنانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ مودی سرکار نے غیر ملکی مہاجرین کے نام پر مسلمانوں کو حراست میں لینے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ مودی کے فاشسٹ اقدامات سے بھارت میں مسلمان خوف کا شکار ہیں۔ ہزاروں افراد کو غیر قانونی تارکین وطن قرار دے کر حراست میں لیا جا چکا ہے۔امریکی میڈیا کے مطابق زیر حراست افراد میں بھارتی فوج کے سابق مسلمان اہلکار بھی شامل ہیں۔ آسام میں ایک ہی گھر کے کچھ افراد کو بھارتی اور دیگر کو مہاجر قرار دیا جا چکا ہے، اسی طرح اب تک 35 لاکھ مسلمانوں سے بھارتی شہریت چھین لی گئی ہے۔ مسلمان اپنے خاندان والوں سے الگ ہونے کے ڈر سے خود کشیاں کرنے لگے ہیں۔رپورٹ کے مطابق آسام میں مودی کے مخالفین کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ مودی سرکار مذہب کی تبدیلی کیخلاف بھی بل پیش کرنے جا رہی ہے جبکہ تاریخ کی نصابی کتابوں سے بھی مسلمانوں کو نکالا جا رہا ہے۔امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ بھارت میں کئی ریاستوں کو خصوصی حیثیت حاصل ہے لیکن کشمیر انضمام صرف مسلم اکثریت ہونے کی بنا پر کیا گیاہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ظلم وستم کی کہانی آسٹریلوی صحافی نے بیان کردی۔آسٹریلیا کے معروف کالم نویس سی جے ورلیمان نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق چشم کشا اعدادوشمار جاری کئے ہیں۔ آسٹریلوی مصنف کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں عراق اور افغانستان سے زیادہ فوجی موجود ہیں۔5سے 7لاکھ بھارتی فوجی وادی میں تعینات ہیں۔ آسٹریلوی صحافی نے بھارتی قبضے کے تحت کشمیر میں زندگی کے نام سے تحریر اپنے سوشل میڈیا پر شیئر کی جس میں ان کا کہناتھا مقبوضہ کشمیر میں ہر 10کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے اور مقبوضہ وادی میں 6ہزار سے زیادہ نامعلوم قبریں یا اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ ان لوگوں کی قبریں ہیں جنہیں بھارتی فورسز نے غائب کیا تھا۔ اس کے علاوہ 80 ہزار سے زائد بچے یتیم ہو چکے ہیں۔اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ مسلسل ظلم و ستم اور تنائوکے باعث 49 فیصد بالغ کشمیری پی ایس ٹی ڈی نامی دماغی مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔