کراچی (رپورٹ: وکیل الرحمان )لانچوں کے شکار پر جانے پر عائد پابندی اور لاک ڈاون کے باعث فشریز شعبہ غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوگیا ۔پابندی سے قبل لانگ روٹ پر جانے والی تین درجن سے زائد لانچیں شکار سے واپس پہنچ گئی ہیں لیکن آکشن ہال میں رش اور زائد افراد کے اجتماع کو روکنے کے لئے اقدامات کے باعث انتظامیہ کے لئے مچھلی وجھینگے کی خرید وفروخت میں مشکلات کا سامنا ہے زرائع کے مطابق درجنوں لانچیں برف اور شکار پر جانے کیلئے تیار تھیں جن کو روک دیا گیا ہے جس کی وجہ سے لانچ مالکان کو لاکھوں روپے نقصان کا سامنا ہے دوسری جانب بڑی لانچوں میں پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے مزدور بڑی تعداد میں کام کرتے ہیں لانچیں کھڑی ہونے سے یہ تمام مزور بے روزگار ہوگئے ہیں ۔زرائع کا کہنا ہے کہ چھوٹی لانچوں میں بعض روزانہ کی بنیاد پر اور بعض ہفتہ ،ڈیڑھ کے لئے شکار پر جاتے ہیں جب کہ بڑی لانچیں تین ،چار ہفتوں کے لئے شکار پر جاتے ہیں 15دن لاک ڈاون کے دوران لانچیں کھڑی ہونے کے باعث مزکورہ بڑی لانچیں 15دن بعد ممکنہ طور پر شکار پر جاسکیں گی اور ایک ماہ بعد واپس آئیں گی جس کا مطلب ہے کہ مچھلی وجھینگے کی شکار ڈیڑھ ماہ کے لئے معطل ہوجائے گی جس کے نتیجے میں ہزاروں ماہی گیر ،مزدور اور بیوپاری بے روزگار رہیں جب کہ سی فوڈ ایکسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے ملک کو ایک محتاط اندازے کے مطابق 3کروڑ ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچے گا لانچ مالکان کا کہنا ہے کہ لانگ روٹ کی لانچوں کی اسکریننگ اور تمام حفاظتی تدابیر احتیار کرنے کے بعد اجازت دی جائے لاک ڈاون کے دوران وہ شکار میں مصروف ہوں گے اور کسی قسم کا خطرہ نہیں بنیں گے اس کے مقابلے میں فش ہاربر میں کھڑی لانچوں کیساتھ مسلک ماہی گیر اور مزدور سے باہر سے تعلق ہونے کی وجہ سے فش ہاربر میں ہی رہیں گے جس کے اکھٹا رہنے کے نتیجے میں وائرس پھیلنے کے خطرات زیادہ ہیں ۔