بلاول بھٹو زرداری کا اب مطالبہ ہے کہ حکومت استعفیٰ دیکر نئے انتخابات کروائے۔ دراصل یہ مطالبہ پیپلز پارٹی پہلے دن سے کرتی آئی ہے۔ اس مطالبے کے پیچھے جو سوچ کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو صوبہ سندھ میں حکومت بنانے، جیتنے ووٹ حاصل کرنے کے سلسلے میں کوئی پریشانی نہیں رہی۔ پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ سندھ تو اس کی جیب میں ہے۔ پاکستان کے دیگر صوبوں میں وہ اگر پہلے جتنی سیٹیں بھی حاصل کرتی ہے تو یہ کوئی نقصان کی بات نہیں ہوگی۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے مرکزی شہر لاڑکانہ میں صفدر عباسی کے بھتیجے معظم عباسی کے نااہل ہونے کے بعد پی ایس 11 کی سیٹ پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں جس طرح کا مقابلہ ہو رہا ہے اس کے باعث پیپلز پارٹی کی پیشانی پر پریشانی کے باعث پسینہ آ گیا ہے۔اگر پیپلز پارٹی کے لیے لاڑکانہ کی ایک سیٹ حاصل کرنا مشکل نہ ہوتی تو بلاول بھٹو زرداری اہلیان لاڑکانہ کو راضی کرنے کے لیے اپنی چھوٹی بہن آصفہ بھٹو زرداری کو لاڑکانہ کی گلیوں میں ووٹ لینے کے لیے کیوں اتارتے؟ آصفہ بھٹو اب لاڑکانہ کی ان گلیوں میں ووٹ مانگنے کے لیے پھرتی نظر آتی ہے ؛ جن گلیوں میں گٹر ابل رہے ہیں اور سیوریج کے گندے پانی کی وجہ سے آصفہ بھٹو کو بھی چلنے میں پریشانی پیش آ رہی ہے۔ اس ماحول میں جب بینظیر بھٹو کی چھوٹی بیٹی لاڑکانہ کے شہریوں سے کہتی ہے کہ اس بار ان کے پارٹی امیدوار کو ووٹ دیں تب لاڑکانہ کے لوگ یہ نہیں کہتے کہ ’’جی بی بی‘‘ اب لاڑکانہ کے لوگ آصفہ بھٹو سے سوال کرتے ہیں مگر بیحد محبت کے ساتھ وہ انہیں اپنی گلیوں میں ابلتے ہوئے گٹروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’آپ کا امیدوار جیت کر اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کیا کرے گا؟‘‘ جب آصفہ بھٹو کہتی ہے کہ ’’وہ ان مسائل کو حل کرے گا‘‘ تب وہ طنز کے ساتھ مسکرا کر کہتے ہیں کہ ’’بی بی! گزشتہ گیارہ برس سے تو آپ کی حکومت ہے۔ آپ کی حکومت نے پورے سندھ کے ساتھ جو کچھ کیا ہے؛ اس کا ایک منظر شہید بھٹو کے شہر میں بھی آپ دیکھ سکتے ہو‘‘جب ایسے سوالات سننے کے بعد آصفہ بھٹو لاجواب ہوکر واپس لوٹتی ہے تب وہ پارٹی کے ان عہدیداروں سے پوچھتی ہے کہ ’’یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ آپ نے تو ہمیشہ کہا ہے کہ لاڑکانہ کے لوگ صرف ہماری ایک جھلک دیکھ کر ہم پر اپنے ووٹ نچھاور کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘ اس کے بعد لاڑکانہ کے ’’بھٹو ہاؤس‘‘ میں عجیب قسم کی خاموشی چھا جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت نے کبھی سوچا تک نہیں تھا کہ لاڑکانہ کے لوگ ان سے ایسے سوالات بھی کریں گے؟ پیپلز پارٹی کو یقین رہا ہے کہ لاڑکانہ کے لوگ پیپلز پارٹی کے ایسے پروانے ہیں جن کے لیے پیپلز پارٹی شمع کی طرح ہے۔ وہ شمع جب بھی روشن ہوگی تب لاڑکانہ کے لوگ پروانوں کی طرح ناچتے ہوئے چلنے کیلئے آئیں گے۔ مگر حالات نے پیپلز پارٹی کے عاشقوں کو باغی بنا دیا ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے حوالے سے عام طور پر سندھ کے سارے شہروں اور خاص طور پر لاڑکانہ میں جرأت انکار پیدا ہونے لگا ہے۔ اب وہ پوچھنے لگے ہیں کہ ان کے لیے اس جماعت نے کیا کیا ہے؟وہ جماعت جس سے سندھ کے لوگوں نے غیرمشروط محبت کی ہے۔ مگر جب محبت کا نشہ ختم ہوتا ہے تب بہت سے ایسے جذبات کا اظہار بھی ہونے لگتا ہے جن جذبات کو اپنے الفاظ کا پیراہن پہنا کے مرزا غالب نے لکھا تھا: ’’وفا کیسی ؟ کہاں کا عشق؟ جب سر پھوڑنا ٹھہرا تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو؟‘‘ پیپلزپارٹی سندھ کے عوام کے لیے پہلے عشق تھی اورپھروہ شادی کے رشتے میں استوار ہوئی مگر اب وہ رشتہ عوامی عدالت کے کٹہرے میں انصاف کی صدا بن رہا ہے۔ یہ کہنا تو شاید قبل از وقت ہے کہ سندھ کے لوگ پیپلز پارٹی سے طلاق لینا چاہتے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ محبت کا دور ختم ہوا۔ اب حساب کتاب کا دور شروع ہو چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس صرف بندھے ہوئے ہاتھ ہیں۔ پیپلز پارٹی ہر بار یہ کہہ کر اپنی جان چھڑاتی رہی ہے کہ اسے ایک اور موقعہ دیا جائے مگر اب لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی معافی کا کوٹہ ختم ہوگیا ہے۔اب سندھ کے لوگ پیپلز پارٹی کا سیاسی احتساب کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اہلیان لاڑکانہ پیپلز پارٹی کے امیدوار اور قیادت کے سامنے تیکھے سوال کیوں اٹھاتے؟ یہ بیداری کا دور ہے یا بغاوت کا؟ اس بارے میں صحیح جواب تو سیاسی مورخ دے گا مگر سچ یہ ہے کہ اب لاڑکانہ کے لوگوں نے پیپلز پارٹی کے سامنے بولنا شروع کردیا ہے۔ اصولی طور پر پیپلز پارٹی کو اس بات پر فخر ہونا چاہئے کہ کیوں کہ یہ حقیقی جمہوریت ہے۔ جمہوریت کا بنیادی وصف بھی تو یہی ہے کہ’’عوام کی حکومت عوام کی معرفت حکومت اور عوام کے لیے حکومت‘‘ مگر یہ باتیں وہ ہیں جو بلاول زرداری غیر ملکی میڈیا کے سامنے کہتے ہیں۔کسی دانشور نے یہ کہا تھا کہ ’’تمام لوگوں کو تمام وقت کیے لیے احمق بنایا نہیں جا سکتا‘‘ وہ بات اب پیپلز پارٹی اور سندھ کے عوام کے حوالے سے سچ ثابت ہو رہی ہے۔سندھ میں سیاسی بیداری کا وقت کب آئے گا؟ یہ سوال اٹھانے والے دانشور اب خوش ہیں کہ اس بیداری کی ابتدا ہو چکی ہے۔ یہ بیداری آگے چل کر کون سی صورت اختیار کرتی ہے؟ یہ سوال کا جواب اس وقت دینا مشکل ہے مگر اب پیپلز پارٹی کو بھی یہ احساس ہونے لگا ہے کہ صرف کرپشن کا کاروبار چلا کر لوگوں کو اپنی مٹھی میں قابو کرنا ممکن نہیں رہا۔ لاڑکانہ کے ضمنی انتخاب میں بظاہر امیدوار تو جمیل سومرو ہیں مگر حقیقت میں یہ انتخاب معظم عباسی اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ہے۔ کیوں کہ جمیل سومرو وہ شخص ہے جو برسوں سے بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ کسی سائے کی طرح رہا۔ جمیل سومرو وہ شخص ہے جو کبھی ممتاز بھٹو کا ساتھی تھا۔ مگر اب وہ بلاول بھٹو زرداری کا سیاسی سیکریٹری ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا خیال تھا کہ جمیل سومرو کے لیے لاڑکانہ امڈ آئے گا۔ مگر جمیل سومرو اپنی انتخابی مہم کے دوراں حیران اور پریشان ہے۔ جب لاڑکانہ کے لوگ اس سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کامیاب ہونے کے بعد ان سے کہاں ملاقات ہو پائے گی؟ تب وہ آئیں بائیں شائیں کرتا ہے سنے جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو بااثر دکھانے کے لیے کبھی لاڑکانہ کے ہسپتال میں جاکر ڈاکٹروں کی سرزنش کرتا ہے اور کبھی شہری انتظامیہ سے ملاقاتیں کرتاہے مگر ان ساری باتوں کے باوجود اسے شدت سے محسوس ہو رہا ہے کہ اہلیان لاڑکانہ کو اپنے وعدوں کی بوتل میں اتارنا اتنا آسان نہیں جتنا پہلے تھا۔ کیوں کہ اب فرق پیدا ہوگیا ہے۔ اب لاڑکانہ بدل گیا ہے۔ وہ لاڑکانہ جو ہمیشہ سے سیاسی تقاریر سنتا اور تالیاں بجاتا تھا۔ اب اس لاڑکانہ کے باغی عوام نے بولنا شروع کر رہا ہے۔ جب باغی بولتے ہیں تب آقاؤں کے پاس خاموشی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں رہتا۔