شیخ زید مسجد ایک شاہکار ہے۔زیر زمین شاپنگ مال سے گزر کر ہم برقی زینے کے ذریعے اوپر پہنچے تو سامنے مسجد تھی۔مسجد کے بالکل آگے شفاف پانی کا تالاب تھا۔ہوا پانی میں ننھی منی لہریں بنا کر کھیل رہی تھی۔کوئی ایسا بچہ یا بڑا نہیں تھا جو پانی میں داخل ہوتا اور وہاں اودھم مچاتا۔ عصر کا وقت ہو چکا تھا۔سورج مسجد کے سفید گنبدوں کے پیچھے چھپنے والا تھا۔سفید سنگ مر مر‘ ستونوں ‘ محرابوں اور کناروں پر چمکتا ہوا سنہری رنگ۔ ابھی ہم پر حیرت کے کئی در کھلنا تھے۔دل خود بخود چاہنے لگا کہ دو رکعت نفل پڑھے جائیں۔وضو کا انتظام تہہ خانے میں تھا۔یہاں بھی برقی سیڑھی تھی۔نیچے اترے تو دائیں جانب لکڑی کے دو سٹینڈ پڑے تھے۔یہ جوتیاں ‘ عینک اور موبائل وغیرہ رکھنے کے لئے تھے۔ساتھ ہی وہ گول ہال تھا جس کے درمیان ایک گول چبوترے کے اوپر پانی فوارے کی شکل میں اچھل رہا تھا‘ اس چبوترے کے ساتھ ساتھ سنگ مر مر کی چوکیاں بنی تھیں۔ ٹونٹیاں خود کار تھیں‘ ہاتھ جونہی نیچے جاتا پانی بہنے لگتا۔پانی ٹھنڈا تھا۔ماحول میں شاہانہ تعمیر نے مرعوبیت پیدا کر رکھی تھی۔وضو خانے کی چھت کا گنبد‘ دیواریں‘ فوارہ‘ چوکیاں اور دیواروں پر نقش و نگار داد طلب کر رہے تھے۔ایسا وضو خانہ کہ میں نے نہیں دیکھا۔سامنے ایک منقش محراب کے نیچے پھول اور پتیوں سے آراستہ بیسن تھا۔اس میں دو ٹونٹیاں تھیں۔ان کا پانی پینے کے لئے تھا۔میں نے دو گھونٹ حلق میں اتار لئے۔ وضو خانے سے اوپر آئے تو تھوڑا آگے درجنوں ستونوں اور ان کے درمیان محرابوں نے عجیب منظر کھینچ رکھا تھا۔دائیں طرف مسجد کا صحن تھا۔ستونوں والے برآمدے اور صحن کے ساتھ باریک رسیاں لگا کر کچھ علاقے مخصوص کر دیے گئے تھے۔ فوٹو گرافی اور ویڈیو کے لئے صرف رسیوں کے اندر کیمرہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔تھوڑا آگے جائیں تو مسجد کے اندرونی حصے کی طرف راستہ جاتا ہے۔ایک محافظ سے جوتے رکھنے کی جگہ پوچھی۔ اس نے ایک غرفہ کی طرف اشارہ کر دیا۔ اندر داخل ہوئے تو کوئی تیس فٹ ضرب 8فٹ کا کمرہ تھا۔درمیان میں پوشش والے بنچ اور دیواروں کے ساتھ دونوں طرف لکڑی کی الماریوں میں خانے بنے ہوئے ہیں۔کوئی نمبر لگانے والا‘ ٹوکن والا یا رکھوالی کی فیس لینے والا نہیں تھا۔میں نے اپنی پانی والی بوتل اور جوتے ایک خانے میں رکھ دیے۔ مسجد کے اندر سیاحوں کے لئے پلاسٹک کا ایک پلیٹ فارم بچھا دیا گیا ہے۔یہ ایسا ہی راستہ ہے جیسے شادی بیاہ میں سٹیج کے سامنے لکڑی کا فرش بچھاتے ہیں۔اس پلیٹ فارم کے دونوں طرف رسیاں تنی ہوئی ہیں۔ایک لمبی قطار میں مردو زن اندر جاتے ہیں ۔محافظ کیو آر کوڈ سے دیکھ لیتے ہیں کہ کتنے لوگوں نے اندر داخلے کی بکنگ کرائی ہے۔طاہر علی بندیشہ نے اپنا فون نکال کر بکنگ دکھائی۔یہاں سے آگے بڑھے تو ٹھوس پلاسٹک والا پلیٹ فارم مسجد کے مرکزی ہال تک لے گیا۔بے ساختہ زبان سے سبحان اللہ نکلا۔انسان کے پاس دولت کے انبار ہوں‘ سوچنے اور منصوبہ بندی کی فراست ہو‘ تعمیراتی حسن کا ذوق ہو اور اللہ سے محبت ہو تو پھر جا کر اس طرح کی مسجد بن پاتی ہے۔ اس ہال میں جمعہ و عیدین کی نماز ادا ہوتی ہیں۔جوتے رکھنے والے کمرے کے ساتھ جو ہال ہے وہاں معمول کی پانچ نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔مسجد میں مختلف جگہوں پر ریک بنا قرآن پاک کے نسخے رکھے ہیں۔چمڑے کے مجلد قرآن۔رنگدار طباعت‘ کاغذ کا اعلیٰ معیار۔معلوم نہیں خط تحریر کون سا تھا لیکن جو بھی تھا نہایت نظر نواز اور دیدہ زیب تھا۔یہ قرآن ابوظہبی کے محکمہ اوقاف نے چھاپ کر رکھے تھے۔ہر نسخے پر اوقاف کی تحریر موجود ہے۔دل چاہ رہا تھا کہ ایسا ایک نسخہ کہیں سے مل جائے۔ مسجد کی پارکنگ‘ شاپنگ مال‘ صحن‘ برآمدے اور مرکزی ہال تک میں کچھ خواتین ایسی نظر آئیں جیسے حوریں ہوں۔ اکثر کی قامت پانچ فٹ آٹھ انچ یا اس سے زیادہ ۔کسی نے سبز اور کسی نے ہلکے بھورے رنگ کی عبایا لے رکھی تھی۔ یہ روس‘ ازبکستان ‘ آذر بائیجان اور قازقستان وغیرہ سے آئی سیاح تھیں۔شاید مسجد میں داخلے کے لئے لباس کی جو پابندی رکھی گئی تھی اسے پورا کرنے کے لئے انہوں نے عبایا لے لئے تھے۔یہ خواتین اور دیگر سیاح تصویریں بنا رہے تھے۔ باہر نکلے تو مغرب ہونے والی تھی۔ایک بار پھر زیر زمین طلسمی بازار سے گزرتے ہوئے پارکنگ تک آئے۔ابوظہبی شہر میں جانے کا وقت نہ رہا تھا۔تھکن اتر رہی تھی۔تسمے والے بوٹ میرے پائوں دُکھا رہے تھے۔ کورنش (بیچ) راستے میں تھی ۔گاڑی ساحل کے سامنے کھڑی چالیس پچاس منزلہ روشن کھڑکیوں والی عمارتوں کی کے قریب پارکنگ میں لگائی۔یہاں سے ایک راستہ زیر زمین سڑک عبور کر کے دوسری طرف لے جاتا ہے۔اس طرف پہنچے تو سمندر کی موجیں رواں تھیں۔لانچیں اور بڑی کشتیاں گزرتیں تو ساحل پر لہروں کا شور بڑھ جاتا۔ساتھ ہی شیشے کے ایک کھلے ہال میں سرفنگ کے لئے مصنوعی سہولت فراہم کی گئی تھی۔آدھے گھنٹے کے دو سو درہم۔پاکستان کے 16ہزار۔ چار پانچ لڑکوں نے ایک حصہ 8سو درہم میں بک کرا رکھا تھا۔پرائیویسی کے باعث اندر جانے کی اجازت نہ تھی۔رات کی تاریکی ‘ ہوا اور سمندر کا کنارا۔ہمارا مسئلہ مگر بوٹوں کا تھا۔آدھا گھنٹہ رکنے کے بعد واپسی کے لئے چل پڑے۔بھوک منہ زور ہو رہی تھی۔ابوظہبی عبور کیا۔دبئی کا مضافاتی صنعتی علاقہ جبل علی آ گیا۔یہاں پاکستانیوں کا ایک مشہور ریسٹورنٹ ہے۔میاں جی ریسٹورنٹ۔ ویک اینڈ کی وجہ سے بے تحاشا رش تھا۔مجھے یوں معلوم ہوا گویا کوٹ لکھپت انڈسٹریل ایریا میں آ نکلا ہوں۔تھکے ہوئے مزدور کھانے سے توانائی اپنے اندر بھر رہے تھے۔تھوڑے انتظار کے بعد خالی میز ملا۔پلیٹر کا آرڈر دیا۔ ساتھ دال کی ایک پلیٹ‘ رائتہ اور سلاد۔ تازہ روٹیاں۔یہ سیاح بھی مزدوروں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑے۔کھانا سستا اور لذیذ تھا۔انڈسٹریل ایریا کی سڑک پر دھول تھی۔دوچار گھنٹے جو گاڑی پارک رہتی ہے وہ گرد سے بھر جاتی ہے۔مزدوروں کی ٹولیاں آ ، جا رہی تھیں ۔پنجابی ،پٹھان، سندھی ، بلوچی ،کشمیری۔ سبھی تھے اپنوں سے دور اور ٹوٹ کر محنت کرنے سے ان کے چہروں پر عجیب سی کہانیاں نقش ہو گئیں تھیں،معلوم نہیں کسی نے ان کا کرب پڑھا یا نہیں ،مجھے تو تحریر پڑھنے میں کوئی دقت نہیں تھی۔پیپلز پارٹی گلف کے صدر اور میرے عزیز دوست میاں منیر ہانس کی کال آگئی ،جبل علی کا سن کر بولے کہ تھوڑا آگے میرینا کا علاقہ ہے ۔وہاں لاموروسو کیفے پر آ جائیں ۔یہ دبئی کا مہنگا تریں علاقہ ہے ،لگژری زندگی کا نمونہ۔ وہاں سے کافی پی کر روانہ ہوئے اور دوسرے دن کو یاد میں سمیٹ کر سو گئے ۔ (جاری ہے )