پاکستان میں سیاسی پارٹیوں میں لیبر ونگز کی تنظیم نو کرنا مریخ پر شہر آباد کرنے کے مترادف ہے۔پاکستانی معاشرے میں ہر طبقہ ہائے فکر میں استحصالی گروہ بری طرح سرایت کر چکا ہے۔ایسا بھی نہیں کہ ہمارے ہاں قوانین موجود نہیں بلکہ یہاں تو ضرورت سے بھی زیادہ قوانین موجود ہیں۔ قوانین کی بہتات‘تضادات اور عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے قانون شکنی فیشن بن چکی ہے۔ حکومتی سطح پر قلیل المدتی معاشی مفادات کے لئے قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔سرمایہ دار سیاسی اشرافیہ کے ساتھ مل کر نہ صرف آئین پاکستان میں فراہم کئے گئے بنیادی حقوق بلکہ بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی دھڑلے سے خلاف ورزی کرتے ہیں اسی حوالے سے لاقانونیت کی وجہ قانون کی کمزوری سے زیادہ سیاسی مصلحتیں ہیں۔ پاکستان کی انتخابی سیاست منشور کے بجائے پیسے کے گرد طواف کرتی ہے اس وجہ سے سرمایہ داروں کا ایک چھوٹا سا گروہ بامقصد اصلاحات کی راہ میں حائل ہو جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں لیبر ونگز ، مزدور رہنمائوں اور لیبر یونینز کی رسائی ممکن نہیں ہو پاتی اس کی وجہ ظاہر ہے حقیقی مزدوروں اور ان کے مخلص رہنمائوں کے پاس اتنے وسائل اور دولت ہی نہیں ہوتی کہ وہ سیاسی جماعتوں میں اپنی جگہ بنا سکیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مزدوروں کے حقوق کا جھنڈا ایسے مفاد پرستوں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے جن کو سرمایہ دار خود کنٹرول کر کے مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں اس مقصد کے لے پاکٹ یونینز تشکیل دی جاتی ہیں اور مزدوروں کا استحصال کرنے ،لاگت کم کر کے منافع بڑھایا جاتا ہے۔ اس استحصالی طبقہ کے اوپر سرمایہ دار اور جاگیردار طبقہ معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ اس طرح پاکستان میں سیاسی اشرافیہ اور سرمایہ داروں کا مکروہ اتحاد مزدوروں کے حقوق کو پامال کر رہا ہے جو قوانین کو خاطر میں نہیں لاتا بلکہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے قانونی موشگافیوں کو بھی بھر پور طریقے سے استعمال کرتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لئے اشرافیہ اور سرمایہ دار طبقہ کے گٹھ جوڑ کو توڑ کر لیبر ونگز تشکیل دینا ایک چیلنج بن چکا ہے یہاں تک کہ نام نہاد لیبر لیڈرز بھی سیاست دانوں اور وزارتوں کی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں اور مزدوروں کے استحصال میں بطور ایجنٹ کام کر رہے ہیں۔ مزدور رہنما دانستہ طور پر سیاسی اشرافیہ کے خوشامدی بنے ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر کبھی اصلاحات پر کام شروع ہوتا بھی ہے تو سیاست کی نذر ہو جاتا ہے۔50اور 60کی دہائیوں تک یہی ہوتا رہا اور اس کے بعد بھٹو کے اسلامی سوشل ازم میں تو رہی سہی کسر بھی نکل گئی اور معاملات مکمل طور پر سرمایہ دار کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس کے بعد تمام حکومتوں نے سرمایہ دار نظام کے تحفظ کے لئے قانون سازی کی۔جس کی وجہ سے مزدور بالخصوص غیر روایتی مزدور طبقہ خطرناک حد تک نظر انداز ہونا شروع ہو۔ا ن کے لئے کوئی ریلیف رہا نہ کوئی امید۔ اس میں کوئی شبہ نہیں پاکستان میں قوانین کی اس حد تک بہتات ہے کہ مزید قانون سازی کی گنجائش باقی بچی ہے نا ہی عملدرآمد کی کوئی صورت ممکن ہے۔قوانین موجودہیں مگر تضاد اور عملداری کا فقدان بین الاقوامی معاہدوں کو بھی بے اثر کر چکا ہے۔ پاکستان میں قوانین پر غور کیا جائے تو کاغذوں میں نہایت شاندار قانون موجود ہے مگر بدنیتی اور تضاد کی وجہ سے زمینی حالات قانون کے یکسر خلاف اور غیر انسانی ہیں۔پاکستان میں لیبر قوانین کا ماخذ نوآبادیاتی برطانیہ کا لیگل فریم ورک ہے۔ جو 1850ء سے 1947ء تک نافذ العمل رہا۔ المیہ تو یہ ہے کہ موجودہ قوانین نوآبادیاتی فریم ورک سے بھی جدید ترین صورت اختیار کر چکے ہیں گزشتہ سات دہائیوں میں قوانین میں جو ترامیم کی گئیں ان کی وجہ سے تشویشناک صورت حال نے جنم لیا ہے۔ لیبرخواتین ظالمانہ اینٹی لیبر اور سرمایہ دار کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں یہاں تک کہ انٹرنیشنل فنانشلاصلاحات پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اس میں کالا دھن اہم کردار ادا کرتا ہے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ ایک سول سیکٹر آرگنائزیشن ہے اس نے پاکستان کی لیبر پالیسی کو دہری حکمت عملی قرار دیا ہے حکومت لیبر پالیسی مرتب کرتے وقت پالیسی ڈرافٹ اور قوانین کے ڈرافٹ بین الاقوامی کنسلٹنس سے بنواتی ہے۔ان کو خود ساختہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد قانونی شکل دے دی جاتی ہے اکثر تو قانون سازی کو بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا اور نوٹیفکیشن اور آرڈیننس کے ذریعے ہی کام چلا لیا جاتا ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 3اس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ ریاست ہر قسم کے استحصال کے خاتمے کو یقینی بنائے گی اور بتدریج کارکن کی صلاحیت اور کام کو ہم آہنگ کیا جائے گا۔ آرٹیکل 37میں مزید وضاحت کی گئی ہے۔اوقات کار کو انسان دوست بنایا جائے گا۔بچوں اورخواتین کو ایسے کاموں پر مجبور نہیں کیا جائے جو ان کی عمر اور جنس سے مطابقت نہ رکھتے ہوں اورخواتین کو میٹرنٹی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ آرٹیکل 38بلا امتیاز عمر جنس نسل و قوم تمام لوگوں کو یکساں ماحول کی فراہمی کی گارنٹی دیتا ہے جبکہ پاکستان میں آجر اور اجیر جاگیردار اور ہاری کے درمیان تعلقات آقا اور غلام سے بھی بدتر ہیں حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں حالات سرمایہ دار کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان کی لیبر پالیسی کی دوہری حکمت عملی اس لحاظ سے آشکار ہو جاتی ہے کہ آئین میں فراہم کئے گئے مزدوروں کے حقوق کی گارنٹی کو مختلف اوقات میں بلز نوٹیفکیشن اور آرڈیننس کے ذریعے بے اثر کر دیا گیا ہے۔سیاسی اشرافیہ اور سرمایہ دار کے ملی بھگت کی وجہ سے پاکستان میں مزدوروں کے حالات بدترین صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ پاکستان اقوام متحدہ کے یونیورسل ڈیکلریشن 1948ء کا سگنیچری ہے جو مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے اس کے علاوہ آئی ایل او ڈیکلریشن 1998ء میں بھی بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی گارنٹی دی گئی ہے۔ اس کے باوجود بھی پاکستان میں مزدوروں کے حالات میں کوئی بہتری ممکن نہیں ہو سکی بلکہ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭