جب کوئی ملک پائیدار معاشی ترقی کی بجائے دِکھاوے کی ترقی ‘بے پناہ کرپشن اوربیرونی قرضوں پر انحصار کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اسکا حال جلد یا بدیر لبنان جیسا ہوتا ہے۔اسوقت ساٹھ لاکھ آبادی کے ملک لبنان کا معاشی اور سیاسی بحران سنگین شکل اختیار کرچکا ہے۔اس خراب صورتحال کو بیس ماہ ہوگئے لیکن اسکا خاتمہ نظر نہیں آرہا۔ ملک میں روزانہ کئی کئی گھنٹے بجلی بند رہتی ہے۔ڈیزل کی قلت ہے جسکے باعث بجلی کیلئے جنریٹر بھی نہیں چلائے جاسکتے۔ ہسپتالوں میں بجلی غائب رہتی ہے۔ ادویات اور میڈیکل آلات کمیاب ہوچکے ہیں۔اکثر اوقات میڈیکل سٹوروں پر درد کم کرنے کی ادویات تک دستیاب نہیں ہوتیں۔ ملک میں ہر چیز کی شدید کمی ہے کیونکہ لبنان میں زیادہ تر ضروری اشیاء بیرونی ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں۔پیٹرول پمپوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں کہ پیٹرول آئے تو ڈلوایا جاسکے۔ حال اتنا خراب ہے کہ بیروت کی سڑکوں پر ٹریفک لائٹس بھی بجلی نہ ہونے کے باعث بند رہتی ہیں۔لبنان سیاحت کا مرکز ہواکرتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ لبنان کی فوج بیرونی امداد لیکر اپنے جوانوں کو کھانا کھلا رہی ہے۔ فوج سیاحوں کیلئے اپنے ہیلی کاپٹر کرائے پر چلارہی ہے تاکہ کچھ آمدن ہوسکے۔اکثر و بیشتر عوام شہروں کی سڑکوں پر احتجاج اور توڑ پھوڑ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ لبنان میں ایسا شدید معاشی بحران ہے جوڈیڑھ سو سال میں دنیا کے کسی ملک میں نہیں آیا۔ملک میں بہت زیادہ افراطِ زر(مہنگائی) ہے اور مزید بڑھتاجارہا ہے۔ لبنانی کرنسی (پاؤنڈ)کی قدر اتنی کم ہوگئی ہے کہ لوگوں کی قو تِ خرید پہلے کی نسبت بہت معمولی رہ گئی ہے۔دو برسوں میں کرنسی کی قدر میں نوّے فیصد کمی ہوچکی ہے۔موجودہ بحران سے پہلے ایک امریکی ڈالر پندرہ سو لبنانی پاؤنڈ کے برابر تھا۔ اب ایک امریکی ڈالر بیس ہزار لبنانی پاؤنڈ کے برابر ہے۔ لبنان کااعلیٰ متوسط طبقہ بھی بھکاری بن چکا ہے۔امیر غریب ہوگئے ہیں۔یونیورسٹی کے اساتذہ‘ ڈاکٹر اور کمپنیوں کے منیجرز بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق لبنان میں جہاں خیراتی کھانا بانٹا جاتا ہے وہاں لوگ اپنی مرسڈیز اور بی ایم ڈبلیو کاروں میں بیٹھے کھانا لینے کیلئے قطاروں میں نظر آتے ہیں۔چاول اور کھانے کا تیل عنقا ہوچکے ہیں۔ ان چیزوں کے حصول لیے اعلیٰ متوسط طبقہ کے لوگ خیراتی مقامات پرجاتے ہیں۔جو لوگ پہلے سے غریب تھے انکا حال اور بھی خراب ہے۔ امیر غریب کا فرق لبنان میں ہمیشہ سے زیادہ رہا ہے۔ اب تو معاشی بحران کے باعث ملک کی نصف آبادی ٖغربت کی سطح سے نیچے جاچکی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسیف کے مطابق لبنان کے ستّر فیصد لوگوں کے پاس یا تو خوراک نہیں یا کھانے پینے کی اشیا خریدنے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔ معاشی بحران کے باعث بینکوں نے رقوم نکلوانے پرپابندی عائد کردی ہے۔لبنان کے ایک بڑے طبقہ نے امریکی ڈالرمیں اکاونٹس کھلوائے ہوئے تھے۔ جب معاشی بدحالی شروع ہوئی تو بینکوں نے یہ اکاونٹس منجمد کردیے تاکہ لوگ ایک ساتھ ڈالر لینے نہ آجائیں۔ لبنان کی مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی)تین سال پہلے پچپن ارب ڈالر تھی جو گزشتہ بر س تینتیس ارب ڈالرتک کم ہوچکی تھی۔ فی کس مجموعی داخلی پیداوار چالیس فیصد کم ہوچکی ہے۔بے روزگاری کی شرح چند ماہ پہلے چالیس فیصد ہوگئی تھی یعنی ہر دس میں سے چار افراد جو کام کرنے کے اہل ہیں انکے پاس کسی قسم کی ملازمت یا کاروبار نہیں ہے۔ بیرونی قرضوں کے اعتبار سے لبنان دنیا کا تیسرا بڑا مقروض ترین ملک ہے۔ معاشی تباہی کے ساتھ ساتھ ملک سیاسی بحران کا شکار چلا آرہا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنے تباہ کُن معاشی بحران کے ہوتے ہوئے بھی سیاستدان اپنے اختلافات ختم نہیں کرپارہے۔ زیادہ سے زیادہ اقتدار کیلئے جھگڑا کررہے ہیں۔ سعد الحریری آٹھ ماہ سے نگران وزیراعظم تھے اور مخلوط حکومت بنانے کیلئے کوششیں کررہے تھے۔ چند روز پہلے وہ مستعفی ہوگئے اور حکومت بنانے میں اپنی ناکامی تسلیم کرلی۔ ان سے پہلے وزیراعظم حسن ضیاب کی حکومت تھی۔گزشتہ برس ا نہوں نے بیروت کی بندرگاہ پر دھماکے ہونے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس واقعہ میںدو سو افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ لبنان کی سیاست تین بڑے مذہبی گروہوں کے گرد گھومتی ہے جن میں مسیحی ‘ سنّی مسلمان اور شیعہ مسلمان شامل ہیں۔ بعض چھوٹے مذہبی گروہ بھی ہیں جیسے دروز اور یہودی۔ لبنان کے آئین میں فرقہ وارانہ بنیادوں پربڑے سیاسی عہدوں کی تقسیم کی گئی ہے۔ لبنان کے صدر کا عہدہ مسیحی سیاستدان مِشل عون کے پاس ہے جنکا شیعہ تنظیم حزب اللہ سے اتحاد ہے۔ سعد الحریری سنّی مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔وہ حکومت بنانے کیلئے دوسرے دھڑے کی حمایت حاصل نہیں کرسکے۔ انکا موقف ہے کہ صدر عون اور حزب اللہ کابینہ کے معاملہ پر کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کررہے۔ اب صدر نیا عبوری وزیراعظم نامزد کریں گے۔ لبنان کے آئین کے مطابق وزیراعظم بننے کیلیے سنّی مسلمان ہونا ضروری ہے۔سعد الحریری کو کچھ عرصہ پہلے تک سعودی عرب کی حمایت حاصل تھی لیکن اب نہیں ہے۔ البتہ مصر انکا بڑا حامی ہے۔ لگتا نہیں کہ کوئی سنّی سیاستدان سعد الحریری کی مرضی کے بغیر یہ عہدہ سنبھالے گا۔اسلئے سیاسی بحران کے طول پکڑنے کا امکان ہے۔ لبنان کی معاشی ترقی کا ماڈل وہی تھا جوتین سال پہلے تک پاکستان کا تھا۔ آمدن سے زیادہ بے تحاشا اخراجات اور حکومت چلانے والوں میں اُوپر سے نیچے تک بے تحاشا مالی کرپشن اور امیر طبقہ کا حکومت کو ٹیکس دینے سے گریز۔ لبنان کی معاشی ترقی ایک بلبلہ تھی جسے ایک دن پھٹنا تھا۔ عالمی برادری (بشمول امریکہ ‘ فرانس) اس صورتحال کو بہتر بنانے میں لبنان کی کچھ مدد کرسکتی ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب سیاسی بحران حل ہو ‘ کوئی مستقل وزیراعظم عہدہ سنبھالے اور معاشی اصلاحات کا عمل شروع کرے۔ ایک اعتبار سے لبنان کا معاشی دیوالیہ اور سیاسی عدم استحکام عالمی سامراجی طاقتوں کے مفاد میں بھی ہے کیونکہ یہ امریکہ کے چہیتے ملک اسرائیل سے متصل ہے ۔ یہاں حزب اللہ نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے تھے۔ لبنان کمزور اور بحرانی کیفیت میں رہے تو اسرائیل خود کومحفوظ تصور کرتا ہے۔مغربی ممالک اور مشرق وسطیٰ میںموجود دوست لبنان کی مدد اُسی صورت میں کریں گے جب اسکی حکومت اُنکے اشاروں پر چلے گی۔