پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری نے اطلاع دی ہے کہ پنجاب سے اس بار زیادہ تر امیدوار ’’آزاد‘‘ ہی جیتیں گے۔ کیا آزاد امیدواروں کی مقبولیت اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ وہ جوق در جوق کامیاب ہوں گے؟ کوئی تبدیلی تو آنی ہے۔ زرداری صاحب گفتگو میں مخصوص اسلوب کے مالک بلکہ بانی بھی ہیں۔ شاید وہ کہنا چاہتے ہوں گے کہ اس بار زیادہ تر آزاد امیدواروں کو کامیاب کروایا جائے گا۔ جس انٹرویو میں زرداری صاحب نے یہ اطلاع دی اس میں ان کی مایوسی ’’بین السطور‘‘ جھلک رہی تھی۔ مایوسی کے معاملے میں زرداری صاحب اپنے حریف نواز شریف سے بالکل برعکس ہیں نواز شریف مایوسی کا اظہار بیرون سطور کرنے کے قائل ہیں بین السطور نہیں۔زرداری صاحب کی اس مایوسی کی وجہ شاید سینٹ کی ’’بوائی‘‘ کے زمانے میں محکمہ زراعت کی اس یقین دہانی پر عمل نہ ہونا ہے جس کے تحت جنوبی پنجاب میں زرداری صاحب کو سب پر بھاری ہونا تھا۔ ایفائے عہد کا وقت آیا تو محکمہ زراعت اجنبی سا بن گیا ہے۔ صرف جنوبی پنجاب ہی نہیں‘ سندھ میں بھی محکمہ زراعت گنے کے بجائے بہاریہ مکئی کی فصل اگانے کے لیے کوشاں ہے۔ وہ چہک یاد آ رہی ہے جو سینٹ الیکشن پر زرداری صاحب کے لہجے میں تھی۔ ع تیرے لہجے کی چہک یاد آئی ٭٭٭٭٭ زرداری صاحب ’’اطلاع‘‘ کے معاملے میں کبھی معتبر ذرائع مانے جاتے تھے لیکن ان سے جو ہاتھ ہوا ہے اس کے بعد سے لگتا ہے کہ ذرائع کی معتبری متاثر ہوئی ہے۔ شاید ان تک غیر ملکی سفارت خانوں کی رپورٹوں کی خبر ابھی نہیں پہنچی۔ چھ سات بہت اہم اور قدرے کم اہم ملکوں کے ان سفارتخانوں نے حالیہ ہفتوں میں یکے بعد دیگرے بہت سے سروے کروائے ہیں اور ہر سروے کی رپورٹ لیبارٹری تجربے کی طرح ہے۔ خاص طور سے پنجاب کے معاملے میں۔ پنجاب کے سروے نتائج کیا ہیں۔ بتانے کی ضرورت نہیں اور بتانا خطرے سے خالی بھی نہیں۔ بہاریہ مکئی کے لیے کچھ قابل رشک اطلاع نہیں۔ لگتا یہی ہے کہ زرداری صاحب کو اس کی خبر نہیں ہوئی یا ہوئی ہے تو انہوں نے اسے قابل اعتبار نہیں مانا۔ ٭٭٭٭٭ ایک اطلاع تو یہ ہے کہ الیکشن کی قسمت کا فیصلہ دس تاریخ کو یا اس کے بعد ہو گا۔ دوسری خبر یہ ہے کہ شریف خاندان کو کل یعنی چھ تاریخ کو لمبی قید سنا دی جائے گی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ شریف خاندان سے مراد شریف خاندان ہے۔ شہباز خاندان نہیں۔ گو کہ شریف وہ بھی ہیں لیکن جانثاری کا جذبہ ان میں زیادہ ہے۔ کراچی میں شہباز کا گانا سب نے سنا لیکن گانے کے بول میں جو ترمیم انہوں نے ‘‘دل ہی دل میں کی ہو گی وہ اوجھل رہی۔ شاید وہ یوں گاتے ؎ اکیلے ہی جانا ہمیں چھوڑ دو اب تمہارے بنا ہم مزے سے رہیں گے کل کی سزا کی خبر تو شیخ رشید‘ عمران خان اور اعتزاز احسن بہرحال سال بھر پہلے ہی دے چکے تھے کتنی ہو گی۔ یہ بھی بتا چکے تھے چلیے اب وہ دن آخر آ گیا ۔دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے۔ کچھ کا خیال ہے کہ سزا ملنے سے ردعمل بڑھے گا ن لیگ کی انتخابی طاقت بڑھے گی لیکن دوسروں کا خیال ہے کہ ردعمل مایوسی کا ہو گا‘ لیگیوں کی ہمت کمزور پڑ جائے گی۔ کون دوست ہے کل کے بعد پتہ چل ہی جائے گا۔ لیکن فرض کیجیے‘ مایوسی نہ پھیلی تو …؟ زنبیل میں بے انداز بندوست موجود ہیں۔ فکر کی ضرورت نہیں۔ ٭٭٭٭٭ چودھری شجاعت نے کہا ہے کہ نواز شریف الیکشن کو متنازعہ بنا کر سارا ملبہ فوج پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف کو ایسا نہیں کرنا چاہیے انہیں کچھ ملبہ قاف لیگ کے لیے بھی بچا رکھنا چاہیے۔ ویسے پانچ چھ دن پہلے کی بات ہے‘ چودھری صاحب نے یہی بیان ذرا سے فرق کے ساتھ بتا بھی دیا تھا۔ اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ عالمی طاقتیں انتخابات میں دھاندلی کراکے فوج کو بدنام کرنا چاہتی ہیں۔ اس بیان کی خاص بات یہی اطلاع تھی کہ دھاندلی ہو گی اور اس کا ملبہ چودھری صاحب نے عالمی طاقتوں پر پیشگی ڈال دیا تھا۔ سنا ہے عالمی طاقتیں دھاندلی کا یہ منصوبہ بے نقاب ہونے پر پیچھے ہٹ گئی ہیں اب جو بھی کارخیر ہو گا‘ غیر عالمی طاقتوں کے ہاتھوں ہی ہو گا۔ بھاگ لگے رہن۔ ٭٭٭٭٭ چودھری صاحب کے حوالے سے یاد آیا عمران خاں نے قاف لیگ سے خفیہ انتخابی اتحاد کرلیا ہے۔ یہ ایک خبر کی سرخی بھی ہے۔ محترم عمران خان اور محترمہ قاف لیگ کے درمیان خفیہ اتحاد کی اطلاع اگر درست ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ خان صاحب اپنے جلسوں میں ہاتھ ہلا ہلا کر ملک کا سب سے بڑا بلکہ ایشیا کا سب سے بڑا ڈاکو ہونے کا اعزاز خان صاحب زرداری کو دیا کرتے تھے۔ وہی زرداری جن کے بارے میں تحریک انصاف کے نفس ناطقہ شیخ رشید ان دنوں ریشمی لہجے میں اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ قومی مفادمیں وہ انہیں خان صاحب کے نزدیک لائیں گے اور عمران خان کو وزیراعظم بنوانے میں ان کی مدد لیں گے۔ ٭٭٭٭٭ سینئر قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ کسی ایک جماعت کو نشانہ بنانے کا تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے۔ وہ تو پیدا ہو چکا محترمی !اب یہ فرمائیے کہ اس نومولود کا کرنا کیا ہے۔ لاہور میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے موصوف نے مزید کہا کہ الیکشن غیر منصفانہ ہوئے یا ملتوی ہو گئے تو بہت بڑا ظلم ہو گا۔ بڑا ظلم ہو گا یا چھوٹا‘ یہ بحث اپنی جگہ۔ دو میں سے ایک آپشن تو لینا ہو گی۔ آپ فرمائیے ‘ کون سی والی؟ خبر ہے کہ بھکر میں انتخابی پوسٹر پھاڑنے کے جرم میں چار سالہ بچے پر ڈنڈوں اور تھپڑوں کی بارش کرنے والے دو ملزم گرفتار کر لیے گئے۔ اس تکلیف دہ مطلب انتہائی تکلیف دہ تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ جو لوگ کہتے ہیں پاکستان میں آزادی صحافت نہیں ہے ‘ نوٹ فرمالیں کہ تشدد کی خبر بھی چھپ گئی اور ملزموں کی گرفتاری کی بھی۔ ملزموں کا تعلق کس پارٹی سے ہے؟ یہ کسی اخبار نے نہیں چھاپا۔ اب آزادی صحافت کا مطلب اتنی بے مہار آزادی صحافت بھی نہیں۔ ملزموں کا تعلق بتانے کی ’’آزادی‘‘ کا حق استعمال کرنے کی جرأت ہماری بھی نہیں۔ البتہ یہ بتانے میں کوئی زیادہ خطرہ نہیں۔ ملزموں کے نام پرویز خاں اور امیر خاں ہیں اور بچے کا نام جس نے اسے محض کاغذ کا ٹکڑا سمجھا تھا‘ رحمت خان تھا۔ ٭٭٭٭٭ چودھری نثار نے انکشاف کیا ہے کہ ان کا مقابلہ نواز شریف سے ہے۔صرف چار دن پہلے ان کا اعلان تھا کہ ان کا مقابلہ ایک چیونٹے اور چیونٹی سے ہے۔ مقابل کی یہ تبدیلی دلچسپ ہے۔ واضح رہے کہ چیونٹے کی عمر نو سال‘ چیونٹی کی بارہ سال ہے۔ دونوں بہن بھائی ہیں والد کو نیب نے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے اگلے روز پکڑ کر قید کر لیا تھا۔ چیونٹے چیونٹی کے والد کی اس گرفتاری کا کوئی تعلق بہرحال چودھری صاحب کی انتخابی مہم سے نہیں۔ کیونکہ نیب ’’غیر سیاسی‘‘ ہے۔