چین اور بھارت کے فوجیوں کے مابین لداخ میں تازہ جھڑپوں کے بعد سے چینی فضائیہ کے طیارے لائن آف ایکچوول کنٹرول (ایل اے سی)کے آس پاس فضا میں گشت کر رہے ہیں جس سے یہ اندازہ لگانامشکل نہیںکہ چین اور بھارت کے مابین حالات کشیدہ ہیں۔ 29اور 30اگست کی درمیانی شب کوچین نے لداخ میںتازہ پیش قدمی کرتے ہوئے لداخ کے ایک بڑے حصہ کواپنے کنٹرول میں لیا ہے۔ بھارتی اخبارTHE HINDU)) کے مطابق اب تک چین نے لداخ میں ایک ہزارمربع کلومیٹرپرقبضہ جمایاہے ۔ بھا رتی فوج کے بیان کے مطابق چین کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے مقصد سے فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت کے دوران جن امور پر اتفاق ہوا تھا، لیکن لداخ میںتازہ پیش قدمی کرکے چینی فوج’’ پی ایل اے‘‘ نے موجود ہ صورت کو تبدیل کرنے کی اشتعال انگیز حرکت کی۔ امسال اپریل سے لداخ علاقے میں بھارت اور چین کے درمیان حالات پہلے سے کشیدہ تھے اور گزشتہ مئی سے دونوں کے درمیان اسے حل کرنے کے لیے بات چیت ہوچکی ہے۔ تاہم لداخ کی معروف جھیل پیونگ یانگ کے شمالی حصے کوپہلے ہی چین نے اپنے قبضے میں لیاہواہے اوراب اس نے اس جھیل کے جنوب میں پیش قدمی کرتے ہوئے اس پربھی اپناکنٹرول سنبھال لیاہے اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان یہ ایک نیا محاذ کھڑا ہو گیا ہے۔ لداخ میں اس وقت کئی ہزار فوجی لائن آف ایکچول کنٹرول کے دونوں جانب تعینات ہیں اور گزشتہ چار ماہ سے حالات کشیدہ ہیں تاہم اس واقعے کے بعد خطے میں فوجی نقل و حرکت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی خبر رساں اداروں کے مطابق چین نے ایل اے سی کے پاس اپنی فضائی بیس ہوٹن پر جے ایف جنگی طیارے پہنچا دیے ہیں جو لداخ میں سرحد سے بالکل متصل مسلسل پرواز کر رہے ہیں۔اس دوران بھارتی فوجی سربراہ جنرل منوج مکند نروانے لداخ کے مقبوضہ علاقے کادورہ کیااوروہاںتعینات ہمت ہارے ہوئے اپنے فوجی کمانڈروں سے بات چیت کی ہے۔ منوج مکندنروانے اگرچہ بڑی کوشش کرتے ہوئے ایل اے سی پر تعینات فوجی کمانڈروں سے بات چیت میں مزید چوکسی برتنے کو کہا ہے اور کسی بھی صورت حال کیلئے تیار رہنے کو کہا ہے لیکن جس فوج کے آفیسراوراہلکار خودکشیاں کررہے ہوں وہ چین کی سرخ فوج کے سامنے کیا خاک کھڑا ہوسکے گی۔واضح رہے کہ رواں برس اب تک 18بھارتی فوجی اہلکاروں نے اپنی ہی رائفل سے اپنے آپ کاخاتمہ کردیاجن میں دوآفیسربھی شامل ہیں ۔ چین کے سامنے بھیگی بلی بننے والا بھارت کہتاہے کہ ایل اے سی پر رواں برس اپریل تک جو پوزیشن تھی اس کو بحال کیا جائے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کی فوجوں کو پہلے کی پوزیشن پر واپس چلے جانا چاہیے۔ اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بھارت چین کے ساتھ سفارتی اور فوجی سطح پر مذاکرات میں مشغول ہے تاہم کئی دور کی بات چیت کے بعد بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔ چین یہ ماننے کے لئے ہرگز تیارنہیںکہ لداخ بھارت کاحصہ ہے اسی لئے اسکی فوج لداخ کے کئی علاقوں کی طرف مسلسل پیش قدمی کررہی ہے ۔اس بارے میں سب سے بڑا مسئلہ لداخ کی معروف جھیل پیونگانگ ہے جس میں پہلے بھارت’’ فنگر آٹھ‘‘ تک گشت کرتا تھا تاہم چین نے اسے یہ علاقہ چھین لیاہے ۔ بھارتی فوجی ذرائع کے مطابق ڈیپسنگ میں ’’باٹل نیک ‘‘کے پاس ایک مقام کا نام 120 کلو میٹرہے جہاں پہلے بھارتی فضائیہ کی ایک بیس ہوا کرتی تھی تاہم اس وقت یہ بیس چین کے پاس ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیرکے لداخ کامعاملہ روز افزوں پیچیدہ تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے چند روز قبل ایک انٹرویو کے دوران اس صورت حال کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ فی الوقت سرحد پر 1962کے بعد سے سب سے زیادہ سنگین صورت حال ہے۔ 45برس بعد پہلی بار سرحد پر فوجی ہلاک ہوئے ہیں اور دونوں جانب سے جتنی بڑی تعداد اس وقت ایل اے سی پر فوج تعینات ہے وہ غیر مثالی ہے۔ بہرحال تمام قرائن و قیاس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رواں برس کے اختتام تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ موسم سرما بھارت کے لیے بہت سخت ہوگا اور لداخ میں ٹھنڈ کے موسم میں ہی بھارت جنگ کرنے کی پوزیشن میں ہرگزنہ ہوگا۔لیکن بعض دیگر دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ موسم سرما میں لداخ میں چین کے ساتھ جنگ لڑنا بھارت کے لیے بہت مشکل ہے۔ بھارتی فوج پہلے ہی ٹھس ہوچکی ہے او راب جبکہ رٹھنڈ بڑھ جائے گی تواس کے ہاتھ پیرمکمل طورپرشل ہوجائیں گے۔ ان کاکہناہے کہ بھارت کے لیے اس موسم میں چین سے ٹکر لینا بہت مہنگا پڑ سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بات چیت پر اپنی تمام کوششیں مرکوزکر رہا ہے۔ بھارتی دفاعی ماہرین اور تجزیہ کار کہتے رہے ہیں کہ جس انداز سے چین نے ایل اے سی کے کئی علاقوں میں اپنی فوج کو فی الوقت تعینات کر رکھا ہے اس سے بھارت کے وہ کئی علاقے جس پر اس کا دعوی رہا ہے۔ چین کے قبضے میں چلے گئے ہیں۔ لیکن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ایک بیان میں اس تاثر کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ بھارت کی ایک انچ زمین بھی کسی کے قبضے میں نہیں ہے۔ تاہم حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے اس بیان کو جھوٹ قرار دیا تھا۔